حقیقت ظہور میں آسکیں… اور یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے۔ کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے … مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجومہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
اس عبارت میں مرز ا قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت الیسع علیہ السلام کے معجزات کو مسمریزم اور شعبدہ بازی، بازی گر کا تماشا بے حقیقت بے سود بے فائدہ ناقابل قدر مکر وہ قابل نفرت بتایا۔ کیا یہ انبیاء کی توہین نہیں۔ پھر لطف یہ کہ خود اس کو مکروہ اور ناقابل نفرت سمجھیں اور اس مکروہ ناقابل نفرت چیز کو انبیاء کے لئے مانیں۔ اس قدر تقدس بڑا ہوا کہ انبیاء کی کچھ حقیقت نہ سمجھی۔
مرزا قادیانی کیوں مکروہ سمجھتے ہیں؟ ان معجزات کو کیوں قابل نفرت جانتے ہیں؟ مثل مشہور ہے کہ لنگور کو انگور نہ ملے تو کہہ کے چل دیا کہ کون کھائے کھٹے ہیں۔ مرزا قادیانی میں جب صفر دکھائی دیا تو کہہ دیا کہ میں اس کو مکروہ جانتا ہوں۔ نعوذ باﷲ!
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوں۔‘‘ (کھلا انکار معجزات ہے۔…مؤلف)
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) ’’ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ شب کو روغیرہ کو اچھا کیا ہوا یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔‘‘
قرآن کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہم نے یہ اعجاز دیا کہ وہ مادر زاد اندھے کو اچھا کرتے تھے۔ مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ یہ کوئی شب کور ہوگا کیسا معجزہ کا صاف انکار ہے۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار تھیں اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ ‘‘
حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃ اﷲ کے نسب پاک کی کیا توہین کی ہے۔ زبان میں طاقت نہیں کہ ان الفاظ کو دہرایا جائے۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۸، خزائن ج۱۱ ص۲۹۲) ’’آپ وہی حضرت ہیں جنہوں نے (یہ کلمہ