حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ اعجاز کہ وہ مردے کو زندہ کرتے تھے۔‘‘ جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے: ’’واحی الموتیٰ باذن اﷲ‘‘ یہ معجزہ کچھ چیز نہیں اعجاز قرآنی کا کھلا انکار)
اگر مسیح کے اصلی کاموں کو ان خواہش سے الگ کرکے دیکھا جائے جو محض افترا کے طور پر یا غلط فہمی کی وجہ سے گھڑے گئے ہیں تو کوئی عجوبہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ مسیح کے معجزات اور پیشین گوئیوں پر جس قدر اعتراضات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوںمیں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں۔ کسی مسلمان نے بفضلہ شبہ نہ کیا۔ سوائے ملاحدہ دھریہ نیچریہ کے جن کو اسلام سے مس نہیں اور مرزا قادیانی بھی اس قسم کے ہیں) کیا یہ بھی پیشین گوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی۔ لڑائیاں ہوں گی۔ قحط پڑیں گے۔
اگر یہ پیشین گوئیاں کچھ نہیں ہیں تو مرزا قادیانی نے کیوں پیشین گوئی کی کہ طاعون آئے گی۔ زلزلے آئیں گے۔ آتھم مرے گا۔ احمد بیگ مرے گا۔ سلطان محمد مرے گا۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور پھر ان پیشین گوئیوں کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہرایا۔ یہ کس قدر ہٹ دھرمی ہے کہ یہ پیشین گوئیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تو کوئی چیز نہیں اور مرزا قادیانی کے لئے سب کچھ ہوگئیں اور باعزت شمار کی گئیں کچھ نہیں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عداوت ودشمنی کہ:
ہنر بچشم عداوت بزرگتر عیبی است
اور اس سے زیادہ قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نہیں نکل سکیں۔ حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں اوروں سے زیادہ غلط تھیں۔ بڑا افسوس تو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صحیح نکلنے والی پیشین گوئیوں کو غلط بتایا جائے حالانکہ مرزا قادیانی کی ایک پیش گوئی بھی صحیح نہ اتری سب کی سب جھوٹ ہوئیں۔
مرزا قادیانی اس عبارت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلی توہین، اعجاز قرآنی احیاء اموات کا صریح انکار کس وضاحت سے کررہے ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۳۰۲ تا۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۴ تا ۲۵۸) ’’اب جاننا چاہئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور در اصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے… ماسوائے اس کے یہ قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہوولعب نہ بطور