یدایدا ہی دھرمسیہ گلانر بہوتی بھارت
ابھیت دہاتم دھرمسیہ تدا تمانم سرجامیہم
جب بے دینی کا زور ہوتا ہے تو جنم لیتا ہوں۔ (ص۳۳۹ کاویہ از علامہ آسی مدظلہ امرتسری)
گیتا مترجمہ فیضی ص۱۳۶:
بقید تناسخ کند داورش
بانواع قالب دروں آورش
نہ منتہائے معبود در میروند
بچشم سگ وخوک درمیروند
اعمال کی سزا وجزا اس دنیا میں بذریعہ آواگون ملتی ہے۔ یوم الآخرۃ کوئی نہیں۔
پھر کرشن کہتا ہے ہم گزشتہ جنموں میں بھی پیدا ہوئے تھے اور اگلے جنموں میں بھی پیدا ہوں گے جس طرح انسانی زندگی میں لڑکپن، جوانی، بڑھاپا ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی مختلف قالب قبول کرتا ہے اور پھر اس قالب کو چھوڑ دیتا ہے۔ (گیتا اشلوک ۱۲،۱۳ اوہائے۲، مترجمہ دوار کا پرشادافق) پھر کہا جس طرح انسان پوشاک بدلتا ہے اسی طرح آتما بھی ایک قالب سے دوسرے قالب کو قبول کرتی ہے۔ (شلوک ۲۲ اوہائے۲، منقول از قہر یزدانی ص۷)
گیتا کی ان عبارتوں سے کرشن مذہب کا پتہ چل گیا کہ وہ تناسخ کا قائل تھا اور قیامت کا منکر۔
مرزا قادیانی نے کرشن بن کر تناسخ کا اقرار کرلیا
کرشن تناسخ کا قائل ہوا، مرزا قادیانی کہتا ہے کہ میں وہی کرشن ہوں اس کرشن کا اوتار ہوں تو لامحالہ مرزا قادیانی تناسخ کے قائل ہوئے۔ ورنہ دعویٰ کرشنیت جھوٹا۔ کرشن کہتا ہے کہ میں نے پہلے بھی جنم لیا اور بعد کو بھی جنم لیتا رہوں گا۔ آریہ اس کے جنم کا انتظار کرتے ہیں۔
مرزا قادیانی کہتا ہے کہ میں ہی کرشن ہوں تو یقینا کرشن نے مرزا قادیانی میں جنم لیا تو مرزا قادیانی متناسخ فیہ ہوکر تناسخ کے قائل ہوئے۔ ورنہ کرشن کا دعویٰ غلط کذب محض ہوا۔
شاید کوئی خیال کرے کہ گیتا کوئی معتبر کتاب نہیں ہے جس میں کرشن کی طرف اقرار تناسخ وانکار قیامت کی نسبت کی گئی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی کے نزدیک معتبر ہو یا نہ ہو مگر مرزا قادیانی کے نزدیک گیتا ضرور معتبر ہے۔ کیونکہ ان پر فوراً ایک الہام ہوتا ہے۔ ’’مجھے منجملہ اور الہاموں کی اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن ردر گوپال تیری مہماگیتا میں لکھی ہے۔
(لیکچر سیالکوٹ ص۳۴،خزائن ج۲۰ ص۲۲۹)