’’خدا کا وعدہ تھا کہ آخر ی زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے، سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا۔‘‘ (لیکچر اسلام سیالکوٹ ص۳۴، خزائن ج۲۰ ص۲۲۹، از تحریک احمدیت ص۲۷) مرزاقادیانی کی اس تفسیر نے کوئی شک ہی نہیں رکھا کہ بروز وظل اوتار کے معنی میں ہے۔
اوتار کے معنی
لفظ اوتار ہندی لفظ ہے۔ اس سے اترنا، اتارنا بنایا گیا ہے۔ جو صبح شام مستعمل ہوتا ہے۔ یہ لفظ ہندوئوں کے یہاں بہت زیادہ استعما ل ہوتا ہے۔ اس لفظ کو اپنے عقیدہ کے لحاظ سے کسی بڑے پر استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے یہاں یہ عقیدہ ہے کہ خدا حلول کرکے اس کی ہستی میں آگیا۔
دوسرے اسلام کی اصطلاح میں حلول کے یہ معنی بتائے ہیں کہ خدا کی ہستی کا نزول جیسا کہ حلولیہ کا عقیدہ ہے تو مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میں عیسیٰ کا اوتار ہوں صاف خبر دیتا ہے کہ مرزا قادیانی کا یہی عقیدہ تھا کہ عیسیٰ کی روح میرے جسم میں اتر آئی ہے۔ یہی تناسخ ہے اور اسی اوتار کے معنی میں ظل وبروز کا استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ ان کی تفسیر بتائی ہے اس کا بروز یعنی اوتار۔
مرزا قادیانی کا دعویٰ کرشنیت
(تتمۂـ حقیقت الوحی ص۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱) ’’ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گزرا ہے۔ جس کو ردر گوپال بھی کہتے ہیں اس کا نام بھی مجھے لکھ دیا گیا ہے پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ ۲؍نومبر ۱۹۰۴، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸) ’’جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں۔ ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں۔ جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا یا یوں کہنا چاہئے تھا کہ روحانی حقیقت کی رو سے میں وہی (کرشن) ہوں۔‘‘ (……)پھر کہا خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے۔ سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا۔ (کہاں خدا کا وعدہ قرآن وحدیث میں؟ یہ خدا پر افتراء ہے۔ (معاذ اﷲ)
مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کرشنیت نے تناسخ کو بہت واضح کردیا۔ غور کیجئے!
آریوں کے بقول مرزا قادیانی کرشن کے ظہور کا انتظار کرنا ان کے عقیدہ کے لحاظ سے ہوگا اور ان کا عقیدہ تناسخ ہے۔ تو اسی تناسخ کے اصول سے وہ کرشن کے جنم کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ اس لئے کہ کرشن خود تناسخ کا قائل تھا اور اس نے خود اپنے دوسرے جنم کو بتایا ہے۔ چنانچہ گیتا میں کرشن کا یہ قول موجود ہے۔