ان کی نبوت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا۔‘‘ (یہ عبارت کتاب میں نہیں ہے) مگر مرزا قادیانی نے اپنے لئے حصول نبوت کی عرض سے نبوت کو کسبی قرار دیا کہ یہ مرتبہ نبوت کا جو مجھ کو ملا وہ حضور کے کامل اتباع سے شریعت کی اطاعت وفرمانبرداری سے۔ ’’اور چونکہ مجھ کو علم غیب دیا گیا، پیشین گوئیاں دی گئی، معجزات دئیے گئے، اس لئے میں بھی نبی ہوں۔‘‘
غرضیکہ مرزا قادیانی نے بالکل فلاسفہ کی نبوت کے ٹائپ کے مطابق نبوت کا ادعا کیا۔ ملاحظہ ہو: ’’مصنفہ مرزا قادیانی منسلکہ النبوۃ فی الاسلام مگر ایک کھڑی سیرت صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے۔ جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
اس لئے اس کا (میرا نبی) ہونا غیرت کی جگہ نہیں اور یہ نام (نبی) بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا۔ (یہی اکتساب ہے۔ (مؤلف))اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنی لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پاکر غیب کی خبر دینے والا۔ پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے۔ نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا۔ (یہی فلاسفہ کا مذہب ہے۔ (مؤلف))حاشیہ میں ہے اور آیت انعمت علیہم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے۔ اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت (علم نبوت ورسالت) کے لئے محض بروز اور ظلیت اور فنا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے۔ (یعنی اکتساب کا جو مذہب فلاسفہ کا ہے۔)
اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبر پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاوء کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ (یہی فلاسفہ کہتے ہیں۔) پس جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشین گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔مگر ان معنوں سے کہ میں اپنے رسول خدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول ونبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور پر نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہ کیا۔ اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔
(خطبہ الہامیہ ص۱۴، خزائن ج۱۶ ص۱۸۱، النبوۃ ص۱۱۵) ’’یہ امت امت وسط ہے اور