ترقیات کے لئے ایسی استعداد رکھتی ہے کہ ممکن ہے کہ بعض ان میں سے انبیاء ہوجائیں۔ یہی اکتساب نبوت ہے۔‘‘ (جو فلاسفہ کے موافق اہل اسلام کے خلاف۔ (مؤلف))
(کشتی نوح ص۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶) ’’پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہوکر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں۔‘‘
(مرزا قادیانی کا ریویو ص۶ و۷ النبوۃ ص۱۲۷) ’’نبوت گو بغیر شریعت ہو اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقام نبوت حاصل کرسکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمدیہ نبوت کے کمال بھی اپنے اندر رکھتا ہو۔‘‘ (اکتساب نبوت کی کیسی صاف تصریح ہے اور تفسیر بھی فلاسفہ کا مذہب ہے)
(الوصیت ص۱۰،خزائن ج۲۰ ص۳۱۱) ’’لیکن یہ نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے اور اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے۔ پیرو الی ان قال مگر اس کا کامل صرف نبی نہیں کہلا سکتا ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں صادق آسکتے ہیں۔ (یہ بھی اکتساب ہے)‘‘
(الاستفتاء ص۱۶، خزائن ج۲۲ ص۶۳۷) ’’اور کہتا ہے کہ اس نبوت سے وہ نبوت مراد نہیں ہے جو پہلے صحیفوں میں گزر چکی ہے۔ بلکہ یہ نبوت ایک درجہ ہے جو ہمارے نبی خیر الوریٰ کی پیروی سے بغیر کسی کو نہیں ملتا۔‘‘ (یہی نبوت کسبیہ ہے)
(براہین احمدیہ پنجم ضمیمہ ص۱۸۹، خزائن ج۲۱ ص۳۶۰) ’’پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہوگیا۔‘‘
یہ تمام عبارات وہ ہیں جس سے بوضاحت ثابت ہے کہ مرزا قادیانی نے فلاسفہ کے مذہب باطل کے مطابق نبوت کو کسبی جانا اور علم غیب پانے والے کو نبی سمجھا۔ اسی واسطے اتباع واطاعت وپیروی کے بناء پر اپنی استعداد سے نبی بن بیٹھے تو مرزا قادیانی فلسفی نبی ہوئے، نہ اسلامی نبی۔ کیونکہ اسلام نے نبوت کا مرتبہ حاصل ہونا جہدومشقت اتباع واطاعت پر رکھا ہی نہیں۔ اس واسطے جو اکتساب نبوت کا قائل ہو، وہ اسلام کے قانون میں مجرم کفر قرار دیا گیا۔
علامہ قاضی عیاض شفا شریف میں فرماتے ہیں (ص۵۱۹) معہ شرح: ’’اوجوز اکتسابہا ای تحصیل النبوۃ بالمجاہدۃوالریاضۃ والبلوغ بصفاء القلب الی مرتبتہا کالفلاسفۃ‘‘ یوں ہی کافر ہے وہ شخص جو حصول نبوت کو ریاضت مجاہدہ کے سبب جائز