علی وجہ مخالف بطریق اہل الحق لم یخرجوا بہ عن کفرہم فاتہم یرون ان النبوۃ لازمۃ وانہا مکتبسۃ‘‘ فلاسفہ حمقاء بھی نبوت کا اثبات کرتے ہیں لیکن اس طریق سے جو اہل حق کے خلاف ہے اور وہ اپنے کفر سے دور نہیں رہتے۔ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبوت لازم ہے اور اکتساب سے حاصل ہوتی ہے۔ ایسا ہی مسایرہ مسامرہ ص۱۹۰ میں مسطور ہے۔
شرح مواقف موقف سادس صد اول مقصد اول میں ہے: ’’النبی عند اہل الحق من الاشاعرۃ وغیرہم من اﷲ تعالیٰ من قال لہ النار تعاد ممن اصطفاہ من عبادہ ارسلتک او بلغہم عنی او نحوہ ولا یشترط فیہ شرط من الاحوال المکتسبۃبالریاضات والمجاہدات ولا استعداد ذاتی کما تزعم الحکما بل اﷲ سبحنہ یختص برحمتہ من یشاء من عبادہ فالنبوۃ رحمۃ وموہبۃ متعلقہ بمشیئتہٖ‘‘
نبی اہل حق کے نزدیک وہ ہے جس کو خدا نبوت عطا فرمائے اور اس میں ریاضت ومجاہدہ اتباع واقتدا استعداد ذاتی کی کوئی شرط نہیں جیسا کہ فلاسفہ کا مذہب ہے۔ بلکہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص فرمالیتا ہے۔ پس نبوت صرف وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنی فضل سے اور اپنی مشیت سے عطا فرماتا ہے۔
پھر فلاسفہ کا مذہب بھی بیان کردیا: ’’اما الفلاسفۃ فقالوا النبی من اجتمع فیہ خواص ثلث احدہا ان یکون لہ اطلاع علی المغیبات‘‘
فلاسفہ کے نزدیک نبی وہ ہے جو غیب کی خبر دے اور پیشین گوئی کرے۔ اہل حق کے نزدیک نبی کے لئے یہ شرط نہیں۔ ان دونوں عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل اسلام کے نزدیک نبوت محض فضل الٰہی ہے اور فلسفہ والے نبو ت کو کسبی جانتے ہیں۔ اسی واسطے انہوں نے کہا کہ جس کو اطلاع علی المغیب ہو وہ نبی ہے۔
امام غزالیؒ معارج القدس میں فرماتے ہیں: ’’بیان ان الرسالۃ خطوۃ مکتسبۃ ام اثرۃ ربانیۃ فنقول اعلم ان الرسالۃ اثرۃ علویۃ وخطوۃ ربانیۃ وعطیۃ الٰہیۃ لا یکتسب بجہد ولاینال بکسب اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ النبوۃ فی الاسلام‘‘
بلکہ مرزا قادیانی خود اس کے مقرہیں کہ انبیاء سابقین کی نبوت کسبی نہ تھی۔ چنانچہ لکھتے :
(حقیقت الوحی حاشیہ ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) ’’اور بنی اسرائیل میں بہت نبی آئے مگر