بفضل اﷲ وہمۃ وبحکم ’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘ کسی قدر بطور نمونہ ایسے الہامات بیان کرسکتا ہے جن سے خود یہ عاجز مشرف ہوا۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’چنانچہ وہ بعض الہامات جن کو اس جگہ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں، بہ تفصیل ذیل ہیں۔ صورت اول ختم کرنے کے بعد صورت دوم کا نقشہ کھینچتے ہیں۔‘‘
صورت دوم الہام کی جس کا میں بااعتبار کثرت عجائبات کے کامل الہام نام رکھتا ہوں۔ (یعنی وحی حقیقی) یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ بندہ کو کسی امر غیبی پر بعد دعا اس بندے کے یا خود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو ایک دفعہ ایک بے ہوشی اور ربودگی اس پر طاری کردیتا ہے جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے۔
اور ایسا اس بے خودی اور ربودگی اور بے ہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے جو غوطہ سے بہت مشابہ ہے باہر آتا ہے۔ تو اپنے اندر میں کچھ مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوتی ہے اور جب وہ گونج فرو ہوتی ہے تو ناگہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزون اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہوجاتی۔
خلاصہ نقشہ یہ ہے کہ اس کیفیت وحی میں انسان بے ہوش کے قریب ہوجاتا ہے اور ربودگی بے خودی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس کو گونج جھنکار صلصلۃ الجرس معلوم ہوتی ہے اور پھر لطیف کلام محسوس ہوتا ہے۔
اب ہم آپ کو احادیث کی سیر کرائیں!
حضورﷺ پر نزول وحی کی کیفیت میں یہ الفاظ موجود ہیں: ’’احیانا یاتینی مثل صلصلۃ الجرس‘‘ وحی کبھی جھنکار گونج کی آواز میں آتی ہے۔ اذا نزل علیہ الوحی یکاد یغشی علیہ نزول وحی کے وقت بے ہوشی کی حالت ہوجاتی تھی۔’’وقذ لذلک ساعۃ‘‘ ساتھ کچھ دیر تک نشہ کی بے خودی سی ہوجاتی تھی۔ (خصائص کبریٰ از ص۱۱۸ تا ص۱۲۹)
غور فرمائیں کہ مرزا قادیانی نے جو اپنی وحی کی کیفیت کا نقشہ کھینچا ہے۔ وہی کیفیت وحی کی حضور اکرمﷺ پر طاری ہوتی تھی۔ دونوں کے الفاظ میں تطابق کرلو۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ مرزا قادیانی نے اس قسم کی وحی نبوت کا دعویٰ کیا جو حضور اکرمﷺ کے لئے ہے۔ اسی واسطے انہوں نے لکھا۔
اس امت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اﷲ پانے میں ۲۳ برس کی مدت دی گئی۔