(حقیقت الوحی ص۱۴۹، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳) ’’اسی طرح اوائل میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔‘‘
کس قدر صراحت ہے کہ بارش کی طرح وحی سے میرا عقیدہ پھسل گیا اور اس وحی نے نبوت کا خطاب دیا۔ یہ یقینی امر ہے کہ جس وحی کے ذریعے نبی کا خطاب ہے وہ وحی ضرور وحی نبوت ہے اور اس کے مرزا قادیانی مدعی ہوئے۔
(اربعین نمبر۴ ص۶،خزائن ج۱۷ ص۴۳۵) ’’جس کی پوری عبارت پہلے نقل کرچکا ہوں۔ اس کے یہ جملے غور سے پڑھیں۔‘‘
’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ ’’الی ان قال‘‘ اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی۔‘‘
مرزا قادیانی کا یہ کلام اپنے مفہوم بتانے میں بہت صاف ہے کہ جس کی وحی میں امرونہی ہو وہ صاحب شریعت اور میری وحی میں امرونہی ہیں۔ لہٰذا میں صاحب شریعت۔ تو مرزا قادیانی صاحب شریعت ہوئے تو ان کی وحی وحی شریعت ونبوت ہوئی۔ یہ ہی دعویٰ وحی شریعت ونبوت ہے جو ہمارا عنوان ہے۔
اس قدر عبارتیں تو میں نے نقل کی ہیں جن سے مطلق یہ ثابت ہے کہ مرزا قادیانی نے وحی نبوت وحی شریعت کا بھی دعویٰ کیا۔ اب وہ عبارات پیش کرتا ہوں۔ جس سے یہ ثابت ہوگا کہ مرزا قادیانی نے وحی شریعت کی اور وہ دو صورتیں جن صورتوں سے حضور پر وحی آتی تھی جو نبی کے لئے خاص ہیں۔ ان کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ سنئے اور ذرا غور سے۔
وحی کی پہلی کیفیت کا دعویٰ
(براہین احمدیہ حصہ سوم ص۲۲۳ سے ص۲۵۹، خزائن ج۱ ص۲۴۷۔۲۸۸) تک مرزا قادیانی نے وحی والہام کی پانچ صورتیں لکھی ہیں۔ جن کے متعلق اپنا تجربہ بھی ان الفاظ میں لکھا ہے: ’’یہ عاجز