میں اس وقت ظاہر نہ کروں کہ وہ مقام جس کی میں نے یہ تعریفیں کیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی میں نے اس وقت تفصیل بیان کی وہ خدا کی عنایت نے مجھے عنایت فرمایا۔
(ضمیر رسالہ انجام آتھم ص۱۹، خزائن ج۱۱ ص۳۰۳) ’’مکالمہ الٰہیہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرح اس شخص کو جو فنا فی النبی ہے۔ اپنے کامل مکالمہ کا شرف بخشے اور اس مکالمہ میں وہ بندہ جو کلیم اﷲ ہو خدا سے گویا آمنے سامنے باتیں کرتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے، خدا اس کا جواب دیتا ہے۔ آگے لکھتے ہیں پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں نہیں پایا جاتا میں اس کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرا مقابلہ کرے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۲۱۴) ’’اس طرح اس مرتبہ پر یاد الٰہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے۔ مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے۔ یعنی آنکھ میں قوت کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہوجاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہیں اور زبان پر وہ کلام نہایت لذیذ اور اجلے طورپر جاری ہوجاتا ہے۔‘‘
(ایضاً ص۱۳۱، خزائن ج۲۱ ص۲۹۸) ’’جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا ہے اور مجھ سے ہم کلام ہوتا۔‘‘
مرزا قادیانی کی یہ چند عبارتیں دعویٰ ہم کلام کے متعلق جو اس شان سے کہ آمنے سامنے سوال وجواب ہوتا ہے اور عین بیداری میں وہ کہتا ہے اور میرے کان سنتے ہیں۔ یہاں نقل کردی گئیں۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ اس قسم کی ہم کلامی کا دعویٰ کفر ہے۔
دعویٰ وحی شریعت ونبوت اور اس کی دونوں کیفیتیں
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۵۸) ’’سو اس امت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اﷲ پانے میں ۲۳ برس کی مدت دی گئی اور ۲۳ برس تک یہ سلسلہ وحی کا جاری رکھا گیا۔‘‘
صاف تصریح ہے کہ جس طرح حضورﷺ پر وحی آتی تھی۔ اسی نمونہ پر مجھ کو بھی وحی آتی رہی۔
(حقیقت الوحی ص۱۵۰،خزائن ج۲۲ ص۱۵۴) ’’میں خدا تعالیٰ کی ۲۳ برس متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں۔ اس کی پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں۔ جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔ (عبارت بتا رہی ہے کہ مرزا قادیانی اپنی وحی کو وحی قرآنی کا رتبہ دے رہا ہے۔ (مؤلف))‘‘