باب الوحی الرسالۃ فلا نبی بعدہ‘‘{حضور کا فرمان کہ نبوت مجھ پر ختم ہوگئی مراد یہ ہے کہ دروازہ وحی بند ہوگیا اب حضور کے بعد کسی کو نبوت نہ ملے گی۔}
حضرت ام کرز روایت فرماتی ہیں: ’’ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات (رواہ ابن ماجہ)‘‘
ملاعلی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں: علامہ سیوطیؒ نے فرمایا کہ حضور کا مقصد یہ ہے کہ: ’’ان الوحی منقطع بموتی ولا یبقی ما یعلم منہ مما سیکون الی الرویا‘‘ وحی میرے وصال سے منقطع ہوگئی۔ اب آئندہ کی خبریں معلوم نہ ہوں گی سوائے رویائے صالحہ کے۔
(علامہ قاضی عیاض شفاء شریف ص۵۱۹) ’’وکذالک من ادعی منہم انہ یوحی الیہ ای وحیاً جلیاً لا الہاما‘‘ ایسے ہی وہ شخص بھی کافر ہے جو وحی جلی کا مدعی ہو۔الہام کا مدعی کافر نہیں۔
علاوہ ان دو قسموں کے الہامات ہیں کشوف میں رویائے صالحہ مبشرات کو یہ سب کچھ انبیاء کرام کو عطا فرمائے جاتے ہیں اور اولیاء کرام کو ان دو قسموں کے سوا الہامات وغیرہ سب کچھ عطا کئے جاتے ہیں۔
ہماری بحث اس مقام پر صرف ان دو قسموں سے ہے۔ مکالمہ ومخاطبہ شفاہی اور وحی شریعت یا بہ لفظ دیگر وحی نبوت جس کی دو کیفیتیں ذکر کی گئی ہیں کہ آیا مرزا قادیانی نے اس کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں؟ انہیں کی کتابوں سے ہم کو تلاش کرنا چاہئے۔ اچھا ملاحظہ فرمائیں۔
دعویٰ مکالمہ ومخاطبہ شفاہی
اسلامی اصول کی فلاسفی ص۱۳۰، منسلکہ النبوۃ فی الاسلام ص۸۰:
اگر ایک صالح اور نیک بندہ کو بے حجاب مکالمہ الٰہی شروع ہوجائے اور مخاطبہ مکالمہ کے طور پر ایک کلام روشن لذیذ پر معنی پر حکمت پوری شوکت کے ساتھ اس کو سنائی دے اور کم سے کم بار بار اس کو ایسا اتفاق ہوا ہو کہ خدا میں اور اس میں عین بیداری میں دس مرتبہ سوال وجواب ہوا ہو۔ اس نے سوال کیا خدا نے جواب دیا۔ پھر اس عین بیداری میں اس نے کوئی اور عرض کی اور خدا نے اس کا بھی جواب عطا فرمایا۔
ایسا ہی دس مرتبہ تک خدا میں اور اس میں باتیں ہوتی رہیں۔ الی ان قال تو ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے۔ (ص۱۳۱) میں لکھتے ہیں میں بنی نوع پر ظلم کروں گا۔ اگر میں