شاہ صاحب فرماتے ہیں:
کفار کا طلب مرتبہ ہم کلامی محض جہالت ونادانی پر مبنی ہے۔ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ مرتبہ ہم کلامی ملائکہ وانبیاء کے ساتھ خاص ہے۔ ان کے سواء کسی کو میسر نہیں۔ پس ہم کلامی کی فرمائش کرنے کے یہ معنی ہوئے کہ ہم کو نبی یا فرشتہ خدا کیوں نہیں بناتا۔
(کنزالعمال ص۸۰ ج۴) ’’جب حضور اکرمﷺ نے وصال فرمایا، تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’الیوم فقدنا الوحی وعن عند اﷲ عزوجل الکلام‘‘ اب خدا کی وحی اور خدا کا کلام ہمارے لئے مفقود ہوگیا۔‘‘
دوسری قسم یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یا اور فرشتہ خدا کا کلام انبیاء تک پہنچائے۔
حضور اکرمﷺ پر وحی نازل ہونے کی چند کیفیات ہیں۔ اول یہ کہ حضرت کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام جرس کی آواز سے آتے تھے۔
امام بخاریؒ عائشہؓ سے روایت فرماتے ہیں کہ حارث بن ہشام نے حضورﷺ سے عرض کیا: حضور ﷺ آپ پر وحی کیوں کر آتی ہے؟ حضورﷺ فرماتے ہیں کبھی تو مجھ کو گھنٹی کی چھنکار کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ سے سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے پھر اس کی مجھ سے علیحدگی ہوجاتی ہے اور میں اسے یاد کرلیتا ہوں اور کبھی فرشتہ یعنی جبرائیل علیہ السلام انسان کی شکل میں آتے ہیں اور وہ مجھ سے کلام کرتے ہیں۔
پس میں یاد کرلیتا ہوں۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ سخت سردی کے دن میں اس وحی سے پسینہ آجاتا تھا اور بھی روایتیں آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کے وقت آپ کی حالت بدل جاتی تھی۔ (دیکھو خصائص کبریٰ ص۱۱۸ ج۱)
دوسری کیفیت یہ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یا اور کوئی فرشتہ بصورت بشری حاضر دربار ہو اور خدا کا کلام پہنچائیں جیسا کہ حدیث بخاری سے معلوم ہوا۔ یہ دونوں کیفیت والی وحی بھی حضرات انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ اسی کو وحی شریعت، وحی نبوت ورسالت بھی کہتے ہیں۔
چونکہ حضور کے بعد کسی کو نبوت وشریعت عطا نہ کی جائے گی۔ اس لئے اس قسم کی وحی کا بھی دعویٰ کفر ہے۔ حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ حضرت صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ آج سے وحی منقطع ہوگئی اور خدا کا کلام مفقود ہوگیا۔
علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں: ’’وختم بی النبوۃ ای انملق باب