کیونکر انہیں حیطۂ بیان میں لاسکتا ہے۔
نہ حسنش غایتے وارد نہ سعدی را سخن پایاں
بمیرد تشنہ مستقی ودریاہم چناں باقی
البتہ ہم اس جگہ مرزاقادیانی کی پہلے وقت (یعنی دعویٰ نبوت سے پہلے) کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں۔ جس سے مقام نبوت کے علاوہ اس مسئلہ پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے بارے میں بدزبانی اور بے ادبی کا شرعاً کیا حکم ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’ایسے شریف لوگ ہر قوم میں کم وبیش موجود ہوتے ہیں جو مفسدانہ اور غیرمہذب تقریروں کو بالطبع پسند نہیں کرتے اور مختلف فرقوں کے بزرگ ہادیوں کو بدی اور بے ادبی سے یاد کرنا پرلے درجے کی خباثت اور شرارت سمجھتے ہیں اور فی الواقع سچ بھی ہے کہ جن مقدسوں کو خدا نے اپنی خاص مصلحت اور ذاتی ارادہ سے مقتداء اور پیشوا قوموں کا بنایا اور جس روشنی کو اس نے دنیا پر چمکا کر ایک عالم کو ان کے ہاتھ سے نور خدا پرستی اور توحید کا بخشا۔ جن کی پرزور تعلیمات سے شرک اور مخلوق پرستی جو ام الخبائث ہے۔ اکثر حصوں
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
انبیاء اگرچہ بہت ہوئے ہیں
میں معرفت میں کسی سے کم نہیں
ہر نبی کو جو ساغر ملا ہے
وہ پورا کا پورا مجھے بھی ملا ہے
میں یقینا ان سب سے کم نہیں
جو شخص جھوٹ بولتا ہے لعنتی ہے
(ب)پہلے تو انبیاء علیہم السلام سے ہمسری اور برابری کا دعویٰ تھا۔ اب ایک قدم آگے چلئے مرزاقادیانی ایک الہام نقل کرتے ہیں: ’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲)
(ج)مرزاقادیانی کے قلم سے حضرات انبیاء علیہم السلام کے حق میں کمال درجے کی بد تہذیبی ملاحظہ ہو: ’’اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیش گوئیاں موجود ہیں۔ بلکہ بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیش گوئیوں کو معجزات اور پیش