غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذا شیتم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
یہ تو ایک رند خراب حال کا کلام ہے۔ ایک عارف کا قول سنئے۔ حضرت مرزامظہر جان جاناںؒ فرماتے ہیں ؎
محمد حامد حمد خدا بس
خدا مدح آفرین مصطفیٰ بس
پھر مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پوری کائنات کو فیض حضورﷺ کی بدولت پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ حتیٰ کہ انبیاء سابقین علیہم السلام بھی اسی آفتاب نبوت سے مستنیر تھے۔ اسد ملتانی نے محض اظہار عقیدت ہی نہیں کیا بلکہ حقیقت کی ترجمانی کی ہے:
اسد فیوض در مصطفیٰ کا کیا کہنا
بشر کو جو بھی سعادت ملی یہیں سے ملی
اور تاقیام قیامت بنی نوع انسان کی سعادت اور خوش نصیبی حضورﷺ ہی کے قدموں سے وابستہ ہے ؎
محمد عربیؐ کا بروئے ہر دوسرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک برسراو
حضورﷺ کی مثال نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے ؎
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی چشم خیال میں، نہ دکان آئینہ ساز میں
حضورﷺ کے فضائل اور کمالات کا کیا کہنا، نہ کسی زبان کو ان کے بیان پر قدرت، نہ کسی قلم کو انشاء کی طاقت، اس لئے مولانا جامیؒ
(تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)
(ب)’’میں ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶)
(ج)’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ اگر میں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوتا تو خداتعالیٰ میرا نام محمد اور احمد اور مصطفیٰ اور مجتبیٰ نہ رکھتا بلکہ میں کسی علیحدہ نام سے آتا۔ لیکن خدا نے ہر بات میں وجود محمدی میں مجھے داخل کر دیا۔‘‘
(نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱)
مرزاقادیانی کے ایک عقیدت مند نے مرزاقادیانی کی شان میں یہ دو شعر کہے ؎
’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں‘‘
مرزاقادیانی نے اپنے اس نیازمند کو شاباش دی اور یہ اشعار اپنے پاس رکھ لئے۔ العیاذ باﷲ!
(اخبار بدر نمبر۴۳ ج۲ ص۱۴، مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)
قرآن پاک میں جو آیات آنحضرتﷺ کی مدح اور ثناء کے طور پر آئی ہیں۔ مرزاقادیانی نے وہ تمام آیات اپنے اوپر چسپاں کر دی ہیں۔ چند مثالیں عرض ہیں:
۱…’’فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۶، خزائن ج۲۲ ص۷۹)