(۶،الف)اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزات دئیے۔ ’’اتینا عیسیٰ ابن مریم البینٰت‘‘
(ب)پھر حضرت نے یہ معجزات اپنی قوم کو پیش کئے۔ سورہ آل عمران میں ان معجزات کی تفصیلات موجود ہیں اور مجمل ذکر دوسرے مقامات پر بھی موجود ہے۔
(ج)یہ قوم کی بدنصیبی تھی کہ بہت سے لوگوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ ’’فلما جاء ہم بالبینٰت قالوا ہذا سحر مبین‘‘ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ تقریباً دو ہزار سال بعد معجزات عیسوی کو مرزاقادیانی نے شعبدہ بازی اور جادو قرار دیا۔ قارئین خود اندازہ لگالیں کہ یہودی اور قادیانی نظریات کس حد تک ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ تعجب ہے کہ جن معجزات کے بارے میں اﷲتعالیٰ نے خود فرمادیا ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کی حقانیت کے دلائل کے طور پر انہیں دئیے تھے اور وہ اﷲ کے حکم سے ’’باذن اﷲ‘‘ ظہور میں آئے۔ قرآن پر ایمان رکھنے والا آدمی کیونکر ان کا انکار کر سکتا ہے یا انہیں شعبدہ اور مسمریزم قرار دے سکتا ہے؟
(۶)مرزاقادیانی کی ڈھٹائی ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں:
(الف)’’عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
(ب)’’ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہیں تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزژائن ج۱۱ ص۲۹۱)
(ج)ازالہ اوہام میں مرزاقادیانی نے معجزات عیسوی کو مسمریزم کا نتیجہ قرار دیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ: ’’یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قویٰ رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۷)