(۴)آپ کی روح اقدس کو ایک امتیازی نشان حاصل ہے کہ بلاواسطہ پدر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے روح آپ کی والدہ ماجدہ میں پھونگی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا لقب ’’روح اﷲ‘‘ ہے۔ ’’انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وکلمتہ القاہا الیٰ مریم وروح منہ (النسائ)‘‘
(۴)’’آپ کی روح شریر اور مکار تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۸۹، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
(نعوذ باﷲ من ذلک)
(۵،الف)آپ علیہ السلام برگزیدہ رسول خدا ہونے کی حیثیت سے نہایت باوقار، اﷲ کے مقرب بندے اور مجسم صلاح وتقویٰ تھے۔
’’وجیھاً فی الدنیا واٰلاخرۃ ومن المقربین ویکلم الناس فی المہد وکہلا ومن الصالحین (آل عمران:۴۵)‘‘ ’’وزکریا ویحییٰ وعیسیٰ والیاس کل من الصالحین (انعام:۸۵)‘‘
(ب)آپ علیہ السلام سراپا برکت تھے۔ ’’وجعلنی مبارکاً این ما کنت (مریم:۳۱)‘‘
حتیٰ کہ بہت سے مفسرین نے ’’مسیح‘‘ کا معنی بھی برکتوں والا بیان کیا ہے۔
(ج)بنی اسرائیل آپ کو جسمانی ایذا نہ پہنچا سکے۔ ’’کففت بنی اسرائیل عنک (مائدہ:۱۱۰)‘‘
(۵)مرزاقادیانی کے خرافات ملاحظہ ہوں۔
(الف)’’مسیح کا چال چلن کیا تھا۔ ایک کھاؤ پیؤ، شرابی، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خودبین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘
(نور القرآن نمبر۲ ص۸، خزائن ج۹ ص۳۸۷)
(ب)’’ہاں آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے نہیں روک سکتے تھے۔ مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
(ج)’’مسیح تو صرف ایک معمولی سا نبی تھا۔ ہاں وہ بھی کروڑہا مقربوں میں سے ایک تھا اور معمولی تھا۔‘‘
(اتمام الحجۃ ص۳۶، خزائن ج۸ ص۳۰۸)