(۲)آپ نہایت دانشمند تھے۔ آپ کو اﷲتعالیٰ نے کتاب اور حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی تھی۔ ’’علمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل (مائدہ)‘‘
(۲، الف)’’آپ نادان تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۸۸، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸)
(ب)’’آپ کی عقل بہت موٹی تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۸۹، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
(ج)’’آپ علمی اور عملی قویٰ میں بہت کچے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۹۰، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
(۳)حضرات انبیاء علیہم السلام کی تعلیم وتربیت اﷲتعالیٰ دوسرے انسان کے حوالے نہیں کرتے۔ بلکہ خود ہی انہیں تعلیم دیتے ہیں۔ بعض تعلیمات میں جبرائیل علیہ السلام کا واسطہ ہوتا ہے اور بعض بلاواسطہ جبرائیل، براہ راست ہوتی ہیں۔ اسی سنۃ اﷲ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی ہوئی۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کو انجیل دی۔ جس میں ہدایت کا سامان اور نور ہے۔ وہ تورات کی تصدیق کرنے والی ہے۔ یعنی مضامین اس سے ہم آہنگ ہیں نہ کہ اس سے چرائے ہوئے وہ رہنمائی کا ذریعہ اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔
’’واٰتیناہ الانجیل فیہ ہدیً ونور ومصدقاً لما بین یدیہ من التوراۃ وہدًی وموعظۃ للمتقین (مائدہ:۴۶)‘‘
مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اور نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ لیکن جب سے چوری پکڑی گئی ہے عیسائی بہت شرمندہ ہیں۔ آپ نے یہ حرکت شاید اس لئے کی ہوگی کہ کسی عمدہ تعلیم کا نمونہ دکھلا کر رسوخ حاصل کریں۔ لیکن آپ کی اس بیجا حرکت سے عیسائیوں کو سخت روسیاہی ہوئی اور پھر افسوس یہ ہے کہ وہ تعلیم بھی عمدہ نہیں۔ عقل اور کانشنس دونوں اس تعلیم کے منہ پر طمانچہ مار رہے ہیں۔ آپ کا ایک یہودی استاد تھا جس سے آپ نے توریت کو سبقاً سبقاً پڑھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو قدرت نے آپ کو زیر کی سے کچھ بہت حصہ نہیں دیا تھا اور یا اس استاد کی شرارت ہے کہ اس نے آپ کو محض سادہ لوح رکھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۹۰، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)