ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے مکتوبات میں کہیں بھی یہ عبارت نہیں ہے۔ بلکہ یہ سراسر مرزاقادیانی کا افتراء اور بہتان ہے۔ انہوں نے حضرت امام موصوف کے جس فرمان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مکتوبات مطبوعہ امرتسر کے دفتر دوم حصہ ہفتم مکتوب نمبر۵۱ بنام خواجہ محمد صدیق میں موجود ہے اور لطف یہ کہ مرزاقادیانی خود بھی اسی مکتوب کا حوالہ اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۹۱۴، خزائن ج۳ ص۶۰۰) میں دے چکے ہیں۔ اصل کتاب میں یہ عبارت دو کالم کی صورت میں عربی اور فارسی زبان میں ہے۔ مرزاقادیانی نے عربی عبارت نقل کر کے اس کا اردو ترجمہ کر دیا ہے۔ ہم اس جگہ مرزاقادیانی کی اپنی کتاب سے نقل کرتے ہیں۔
’’اعلم ایہا الصدیق ان کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاہا وذالک لافراد من الانبیاء وقد یکون ذالک لبعض المکمل۱؎ من متابعیہم واذاکثر ہذا القسم من الکلام مع واحد منہم سمی محدثایعنی اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اﷲجل شانہ کا کسی بشر کے ساتھ کلام کرنا کبھی روبرو اور ہم کلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خداتعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں اور کبھی یہ ہم کلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہم کلامی کا پاتا ہے اس کو محدث بولتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۱۵، خزائن ج۳ ص۶۰۰)
مشہور ہے کہ ’’دروغ گورا حافظہ نبا شد‘‘ مرزاقادیانی کو حقیقت الوحی تصنیف کرتے وقت اتنا بھی یاد نہ رہا کہ وہ خود پہلے کیا لکھ چکے ہیں۔
مرزاقادیانی کی بڑ
مرزاقادیانی ترنگ میں آکر ایک بڑ ہانکتے ہیں: ’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی… اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے
۱؎ مرزاقادیانی نے یہ لفظ یوں ہی ’’المکمل‘‘ نقل کیا ہے اور اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ حالانکہ اصل کتاب میں لفظ ’’الکمل‘‘ ہے جو کامل کی جمع تکسیر ہے۔ ممکن ہے مرزاقادیانی کو اسم فاعل کی پوری گردان نہ آتی ہو۔ خیر اس کو چھوڑئیے۔ دانا یاں درپئے الفاظ نمے روند!