لیکن حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا تو اب امت کا کام کیونکر چلے؟ اس کے بارے میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا۔
’’کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (بخاری ج۱ ص۴۹۱، مسلم ج۲ ص۱۲۶)‘‘ {بنی اسرائیل میں سیاست انبیاء کے سپرد ہوتی تھی۔ جب ایک نبی فوت ہوگیا۔ اس کے بجائے دوسرا نبی آگیا۔ یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ خلیفے ہوں گے اور بہت ہوں گے۔}
’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ {میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح فرائض انجام دیں گے۔}
(مرزاقادیانی بھی اس حدیث کو (حقیقت الوحی ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) پر نقل کرتے ہیں)
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اس امت میں نبوت کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے خلفاء اور علماء کو امت کی سیاسی قیادت اور دینی پیشوائی کے مناصب سنبھالنے ہوں گے۔ اب ان دو حدیثوں کے ساتھ ’’حدیث تجدید‘‘ کو ملا کر پڑھئے۔ جس طرح ظاہری طور پر ایک صدی کا گذر جانا ایک بہت بڑے انقلاب کی خبر دیتا ہے کہ ایک قرن ختم ہو جاتا ہے۔ نئی نسل آتی ہے بودوباش اور تہذیب وتمدن میں فرق آجاتا ہے۔ اسی طرح مذہبی لحاظ سے بھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ اختتام صدی پر ایک ایسا فرد اٹھے جو اپنی جماعت کے تعاون سے تجدید دین کا فریضہ سرانجام دے۔ حاصل یہ کہ خلفاء یا مجددین کی ضرورت ہی نبوت کا دروازہ بند ہونے سے پیش آئی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ مرزاقادیانی کس قسم کے مجدد بنتے ہیں کہ وہ مجدد کے ساتھ نبی مرسل ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ نبوت کا دعویٰ کر کے انہوں نے اپنی مجددیت کو رخصت کر دیا اور مجدد ہونے کا دعویٰ کر کے نبوت سے فارغ۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
حدیث مجدد کے سلسلہ میں ہماری گذارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ اوّل تو مجدد اخیر صدی میں آتا ہے اور مرزاقادیانی ۱۳۲۶ھ میں فوت ہوئے۔ وہ چودھویں صدی کے مجدد نہیں ہوسکتے۔ دوسرے ان کی سوانح حیات ایسا کوئی کارنامہ پیش نہیں کر سکی جس کو تجدیدی کارنامہ کہا جاسکے۔ بالخصوص جب مرزاقادیانی اپنے آپ کو مسیح کے رنگ کا مجدد کہلواتے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا