انہوں نے ایک عالم کی کایا پلٹ دی۔ تنعم اور تعیش سے دور رہ کر وہ اﷲ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہے اور ضرورت ہوئی تو درویش بوریا نشین، سلطان سریر آراء سے الجھ بھی گیا۔ کیونکہ ؎
باسلاطین درفتد مرد فقیر
از شکوہ بوریا لرزد سریر
قلب اورا قوت از جذب وسلوک
پیش سلطان نعرۂ اولا ملوک
لیکن یہاں حال یہ ہے کہ بقول محترم عبدالقدوس انصاری: ’’قادیانی تحریک کے نتائج وثمرات معلوم کرنا چاہیں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اس کے بانی کا شباب غربت اور افلاس سے گذرا۔ لیکن وہ دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ لنگر خانے کے نام پر آمدوخرچ کی مدات قائم تھیں۔ منارۃ المسیح اور بہشتی مقبرہ کے نام پر ہن برس رہا تھا اور اس کے پسماندگان زروسیم سے کھیل رہے تھے۔‘‘
روپے پیسے کے قصوں کے علاوہ مرزاقادیانی کی دعوت میں اور کچھ تلاش کرنا فضول ہے۔ مرزاقادیانی نہ تو اپنے علمی کارناموں سے کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکے اور نہ ان کی عملی زندگی کوئی عمدہ مثال پیش کر سکی۔
۳… رہا بدعات اور محدثات کا سدباب،تو مرزاقادیانی نے اس طرف توجہ ہی کب دی تھی؟ یا چلئے یوں کہہ لیجئے، انہیں ادھر توجہ دینے کا موقع ہی کب ملا تھا؟ وہ تو دجال کو مارتے رہے، صلیب کو توڑتے رہے اور خنزیر کو قتل کرتے رہے۔ اﷲ کے دین کا حلیہ کیونکر بگڑتا رہا۔ کتاب وسنت کا مذاق کیونکر اڑایا جاتا رہا؟ ان باتوں سے مرزاقادیانی کا نہ کوئی واسطہ تھا نہ انہوں نے ادھر رخ کیا۔
خلاصہ یہ کہ حدیث مجدد میں جو ’’رأس مائۃ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے قطع نظر اگر مرزاقادیانی کے کام کو دیکھا جائے توبھی انہیں مجدد نہیں مانا جاسکتا۔ درخت ہمیشہ اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ اگر حنظل کو آم یا سنگترہ، دزد کو پاسبان، سراب کو چشمہ کوثر کا نام دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی، عقل سلیم آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
حدیث مجدد میں ہذہ الامۃ کی قید
حدیث تجدید میں تیسرا غور طلب لفظ ’’ہذہ الامۃ‘‘ کا ہے ۔ آنحضرتﷺ نے یہ قید کیوں لگائی۔ اس پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ پہلی امتوں میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک نبی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی جگہ دوسرے نبی نے سنبھال لی۔