پڑے گا کہ کیا بحیثیت مسیح وہ اپنے فرائض سے عہدہ برا ہو سکے ہیں۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں ہوسکے تو پھر وہ نہ مسیح نہ مجدد، تیسرے بروئے حدیث اس امت میں کوئی نبی نہیں آسکتا تو مرزاقادیانی کا نبی بن کر مجدد ہونے کا دعویٰ سراسر باطل اور پادر ہوا ہے۔
حدیث تجدید کے سلسلہ میں دو اور غور طلب نکتے
حدیث مجدد کے سلسلہ میں دو اور نکتے قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ اس حدیث کے راوی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ اور مرزاقادیانی تو ابوہریرہؓ کو غبی اور درایت سے خالی قرار دیتے ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۱۲۷) پھر ایسی روایت جس کے اکلوتے راوی ابوہریرہؓ ہیں۔ پر اتنے بڑے دعویٰ کی بنیاد رکھنا کیا یہ علمی ثقاہت کے منافی نہ ہوگا؟ ’’کڑوا تھو تھو، میٹھا ہپ ہپ‘‘
دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث میں صراحت ہے۔ ’’ان اﷲ یبعث‘‘ مجدد تو اﷲ کی طرف سے آتا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی تو انگریز کا خودکاشتہ پودا ہیں۔ اگر وہ اﷲ کی طرف سے آئے تھے تو انگریز کا خود کاشتہ پودا نہیں ہوسکتے اور اگر وہ انگریز کا اپنا لگایا ہوا پودا ہیں تو اﷲ کی طرف سے بھیجے ہوئے نہیں ہوسکتے۔ کوئی دانشور اس نکتہ کو حل کر سکے تو ہم اس کے شکرگزار ہوں گے۔
مرزاقادیانی کی دروغ گوئی کی ایک اور مثال
مرزاقادیانی کا کوئی سا دعویٰ لے کر آپ اس کا تجزیہ کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کو کامیاب بنانے کے لئے دوسری باتوں کے علاوہ مرزاقادیانی کو دروغ گوئی سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ دعویٰ مجددیت کے سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں: ’’یہ عجیب بات ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر جس قدر بجز میرے لوگوں نے مجدد ہونے کے دعوے کئے تھے جیسا کہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور مولوی عبدالحئی لکھنوی وہ سب صدی کے اوائل دنوں میں ہی ہلاک ہو گئے اور خداتعالیٰ کے فضل سے اب تک میں نے صدی کا چہارم حصہ اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۳۰، خزائن ج۲۲ ص۴۶۲)
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی کے بارے میں یہ کہتا کہ انہوں نے مجدد ہونے کے دعوے کئے تھے۔ سفید جھوٹ اور سراسر غلط ہے۔ ان بزرگوں کی تصنیفات چھپی ہوئی موجود ہیں اور علمی حلقوں میں جانی پہچانی ہوئی ہیں۔ کہیں ان کی طرف سے اس دعوے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔