مشعل راہ بنتیں۔ ان کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو کاروان گم کردہ راہ کو نشان منزل کا پتہ دیتا۔
دوعالم کے بادشاہ(ﷺ) یوں زندگی بسر فرماتے ہیں کہ ہفتوں گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا۔ (شمائل ترمذی) صحابہ کرامؓ میں سے لاڈلے غلام حضرت عمرؓ حضورﷺ کو آسودہ زندگی کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ خطاب کے بیٹے! تم یہی سوچنے لگے ہو کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کے حصے میں دنیا آئے اور ہمارے حصے میں آخرت؟ (بخاری وغیرہ) حضورﷺ اس دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں تو اس حال میں کہ پیٹ بھر کر جوکی کی روٹی کبھی نہیں کھائی۔ (صحیح بخاری) غنیمت کا یا ہدایا کا جو مال آتا ہے وہ فوراً اپنے غلاموں میں تقسیم فرمادیتے ہیں۔ اتفاق سے ایک مرتبہ سونے کا کچھ ٹکڑا تقسیم ہونے سے بچ گیا تو شب بھر بے قراری رہی۔ (شمائل ترمذی) اپنے غلاموں میں اعلان فرماتے ہیں۔ جو شخص مال چھوڑ کر فوت ہو تو اس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا اور جو کوئی قرضہ چھوڑ کر فوت ہوتو اس کے قرض کی ادائیگی کا بندوبست میں کروں گا۔ (مشکوٰۃ شریف ص۲۶۳) یہ سیرۃ طیبہ محمد مصطفیﷺ کی ہے۔ مرزاقادیانی اپنے آپ کو محمد مصطفیٰﷺ کا ظل کامل بتاتے ہیں۔ (نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱)
اور ایک گستاخ نے تو یہاں تک کہہ دیا۔
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر نمبر۴۳، جلد۲ ص۱۴)
لیکن مرزاقادیانی کی زندگی میں سیرۃ محمدی کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اور خاکم بدہن، محمد عربیؓ کا تو اس سلسلہ میں نام لینا بھی سوء ادب ہے۔ آقائے دوجہاںﷺ کے غلاموں میں سے بیسیوں مثالیں اسی برصغیر سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ جو بقول اقبال ؎
حکمرانے بے نیاز از تخت وتاج
بے کلاہ وبے سپاہ وبے خراج
کی شان رکھتی ہیں۔ مخدوم عالی مقام سید علی ہجویریؒ، خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، امام ربانی مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ اور ان کے قابل فخر اولاد واحفاد ظاہری سازوسامان سے بے نیاز رہ کر کام کرتے رہے اور اپنے اپنے وقت میں