انابت الیٰ اﷲ کی جگہ زرطلبی اور دنیا پرستی نے لے لی۔
تیسری خرابی غیروں کی نقالی سے یہ پیدا ہوئی کہ اتباع شریعت کی بجائے ہوائے نفس کا اتباع ہونے لگا اور یوں بدعات کا ایک طویل سلسلہ وجود میں آیا۔
یہ تین امہات فواحش ہیں جو مرزاقادیانی کے وقت میں ملت اسلامیہ کی متاع دین وایمان کو گھن کی طرح چاٹ رہی تھیں۔ اب مجدد کا فریضہ تھا کہ وہ امت کے ان امراض کا مداوا ڈھونڈ کر اس کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونکتا۔
لیکن اس کے برعکس مرزاقادیانی نے جو کچھ کیا وہ یہ ہے:
۱… انہوں نے مسلمانوں کے گلے میں سفید فام آقا کی غلامی کا طوق کس دینے کی کوشش کی۔ (کتاب البریہ ص۷، خزائن ج۱۳ ص۸) انگریزوں کو اولی الامر قرار دیا۔ (ضرورۃ الامام ص۲۳، خزائن ج۱۳ ص۴۹۳) اس کی سلطنت کو سایۂ رحمت اور نعمت خداوندی ٹھہرایا۔ (شہادۃ القرآن ص۷۹، خزائن ج۶ ص۳۷۴) انگریز کی اطاعت کے بارے میں کتابیں لکھ کر پچاس الماریاں بھر دیں۔ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) ایسی کتابیں ممالک عرب، مصر اور شام وغیرہ میں پھیلائیں۔ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) انگریزی سلطنت کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بڑھ کر جائے امن قرار دیا۔ (ازالہ اوہام ص۵۵، خزائن ج۳ ص۱۳۰) جن لوگوں نے انگریز کے مقابلہ میں اسلام کی سربلندی کے لئے قربانیاں دیں۔ انہیں چور، حرامی اور قزاق جیسے القاب سے نوازا۔ (شہادۃ القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰) حتیٰ کہ انگریز کی جاسوسی کر کے اسے مخالفین کی فہرستیں مہیا کرتے رہے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷) کیا اسی کا نام تجدید دین ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انگریز کے حق میں مرزاقادیانی کی خوشامدانہ اور تملق آمیز تحریریں دیکھ کر اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آتا ہے۔
یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
(مرزاقادیانی بھی تیموری نسل سے تعلق رکھتے ہیں)
۲… مرزاقادیانی کی تصنیفات ان عناصر اربعہ پر مشتمل ہیں۔ (۱)انگریز بہادر کی بے جا خوشامد، (۲)حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ثابت کرنا، (۳)بے جوڑا اور انمل الہامات، (۴)علماء امت کی تکفیر وتضلیل کے ساتھ ان کامذاق اڑانا۔ ان چار چیزوں کے علاوہ ان کی کتابوں میں ہدایت کا کوئی سامان نہیں۔ ایسی کوئی تعلیمات نہیں جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لئے