جائے۔ لوگوں کو فسق وفجور کی تاریکی سے نکال کر صلاح وتقویٰ کی روشنی کی طرف لایا جائے۔ چنانچہ جب ہم گذشتہ مجددین کی پاکیزہ زندگیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارا ضمیر پکار اٹھتا ہے کہ واقعی وہ اپنے زندۂ جاوید کارناموں کی بدولت مجدد کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کے برخلاف مرزاقادیانی کی سیرت میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو ان کے دعویٰ کی دلیل بن سکے۔
جس طرح ایک طبیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ مریض کا علاج شروع کرنے سے پہلے اس کی بیماری کی پوری تشخیص کرلے۔ ورنہ تو علاج سودمند ہونے کے بجائے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مجدد کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے وہ امت مسلمہ کے مرض کی تحقیق کر لے۔ ملت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے ایک ایک عضو رئیس کا جائزہ لے۔ مرض کے اسباب وعلل پر غور کر لے اور پھر علاج کی تدبیر کر لے۔ مثال کے طور پر پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز کو دیکھئے۔ انہوں نے دیکھا کہ امت میں فساد کی جڑ وہ ملوکیت ہے جو خلافت کی جگہ لے چکی ہے۔ انہوں نے یہیں سے اپنا اصلاحی کام شروع کیا۔ پھر حضرت امام شافعیؒ کا زمانہ آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ یونانی فلسفہ اور ہندوستان کا جو گیانہ فن مسلمانوں میں گھس کر دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے سنت کی تدوین اور کتاب وسنت کی اشاعت کو اپنی کوششوں کا مرکز ومحور ٹھہرایا۱؎۔ حتیٰ کہ یونانی فلسفہ سے مغلوب ہوکر اقتدار کے تخت نے مداخلت فی الدین کرنا چاہا۔ لوگوں کو خلق قرآن کا عقیدہ ٹھونسنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تو امام شافعیؒ کے تربیت یافتہ شاگرد احمد بن حنبلؒ ایک درویش بے نوا ہونے کے باوصف سینہ سپر ہو گئے۔ جابر حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ حق غالب رہا اور باطل سرنگوں۔
آئیے! ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ اس اصول کے تحت مرزاقادیانی کی زندگی کس اعزاز کی مستحق ہے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ انیسویں صدی عیسوی میں یورپین اقوام ٹڈی دل کی طرح ممالک اسلامیہ میں پھیل رہی تھیں اور بقول مرزاقادیانی وہ دنیا کی اسلامی ریاستوں کو نگل رہی تھیں۔ جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ انگریزوں نے ہمارے قومی شعائر کو ملیامیٹ کیا۔ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادیں۔ شاہی بیگمات کی توہین کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سامراجی اقوام کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بھی خداترسی اور
۱؎ امام شافعیؒ کے اسی تجدیدی کام ہی کا نتیجہ ہے کہ بعد میں آنے والے محدثین جنہوں نے تدوین حدیث کا گراں مایہ کام سرانجام دیا۔ ان میں سے اکثر حضرات فروعی مسائل میں امام موصوف ہی کے پیروکار اور ہم نوا ہیں۔