المائۃ عمر بن عبدالعزیز وفی رأس المائتین الشافعی‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: ’’برتمامی ہر صدی سال۔‘‘ (اشعۃ اللمعات ج۱)
مولانا عبدالحئی لکھنویؒ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: ’’مراد از رأس مائۃ باتفاق محدثین آخر صدی ست۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ ج۱ ص۶۵)
حدیث مرفوع،
(شہادۃ القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۶۱)
اور اسی کتاب کے (ص۶۹، خزائن ج۶ ص۳۶۵) پر ہے: ’’حضرت مسیح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے۔‘‘
اور (ص۶۱، خزائن ج۶ ص۳۵۷) پر لکھا ہے: ’’حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح کا قریباً چودہ سو برس کا فاصلہ تھا۔‘‘
رسول اﷲﷺ کا فرمان برحق اور سرآنکھوں پر، ائمہ دین اور علماء کے اقوال بجا، اولیاء کرام کے مکاشفات بھی تسلیم، لیکن سب کا حاصل تو یہی ہے کہ چودھویں صدی کے مجدد کو، خواہ مسیح کے رنگ میں آئے خواہ کسی اور رنگ میں۔ چودھویں صدی کے اخیر میں آنا چاہئے تھا۔ گذشتہ اوراق میں مسیح کی آمد کا وقت کے عنوان کے تحت بیان ہوچکا ہے کہ مرزاقادیانی تو تیرہ صدی کے ختم ہونے سے بھی پہلے آگئے تھے۔ ۱۲۸۷ھ میں ان کے دعاوی اور دعوت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس لئے وہ کسی طرح بھی چودھویں صدی کے مجدد نہیں ہوسکتے۔ وہ مدعی ہیں تو ہوتے رہیں اور ان کے پیروکار انہیں مجدد صدی چہاردہم لکھتے ہیں تو لکھتے رہیں۔ بات بنتی نظر نہیں آتی۔
مرزاقادیانی اور تجدید دین
جہاں تک ہم نے شروح حدیث وغیرہ کو دیکھا ہے۔ تجدید دین کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے مٹے ہوئے نشانات کو زندہ کیا جائے، جن شعائر اﷲ کی بے حرمتی اور بے وقاری ہو رہی ہو۔ ان کا احترام دلوں میں پیدا کیا جائے، مردہ سنتوں کا احیاء اور بدعات ومحدثات کا استیصال کیا