یا ایک سے زیادہ) عالم بھیجتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتا رہے گا۔}
اس حدیث کے ضمن میں تین الفاظ قابل غور ہیں۔ ایک ’’رأس مائۃ‘‘ یعنی صدی کا سر۔ دوسرا ’’تجدید دین‘‘ اور تیسرا ’’ہذہ الامۃ‘‘ اب ان کے متعلق عرض کرتے ہیں۔
رأس مائۃ
صدی کے سر سے مراد صدی کا اخیر ہے۔ وہ کیسے؟ لیجئے ہم حدیث کی تشریح حدیث ہی سے کرتے ہیں۔ اسی ابوداؤد میں چند ورق بعد ص۲۴۲ پر عبداﷲ بن عمر سے روایت منقول ہے۔ (یہ روایت ابوداؤد کے علاوہ مسلم ج۲ ص۳۱۰ اور ترمذی ج۲ ص۴۹ میں بھی موجود ہے) ایک رات رسول اﷲﷺ نے اخیر عمر میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا تم نے یہ رات دیکھ لی۔ اس سے سو سال بعد ’’رأس مائۃ سنۃ‘‘ ان لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ جو آج روئے زمین پر موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ حدیث بالا میں ’’رأس مائۃ‘‘ سے مراد صدی کا اخیر ہے اور سنئے۔
ابوداؤد کے شارح علامہ ابوالحسن سندھی کہتے ہیں: ’’محدثین نے اتفاق کیا ہے کہ صحابہؓ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے ابوالطفیلؓ عامر بن واثلہ ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں جو کچھ کہاگیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ ۱۱۰ھ تک رہے اور آنحضرتﷺ کے فرمان کے بعد اسی پر صدی ختم ہوتی ہے۔ وہی رأس مائۃ سۃ من مقالتہ صلی اﷲ علیہ وسلم (فتح ابوداؤد)‘‘
علامہ جلال الدین سیوطیؒ مرقاۃ الصعود شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں: ’’امام حاکم مستدرک میں اس حدیث (حدیث مجدد) کے بعد امام زہری (تابعی) سے نقل کرتے ہیں کہ جب صدی کا اخیر آیا تو اﷲتعالیٰ نے اس امت پر احسان فرمایا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کو مجدد بنا کر بھیجا… اور ابوبکر بزار کہتے ہیں… امام احمد بن حنبلؒ کے سامنے امام شافعیؒ کا ذکر چل نکلا تو وہ بڑھا چڑھا کر ان کی تعریف کرنے لگے اور حدیث مجدد نقل کرتے ہوئے فرمایا۔ پہلی صدی کے اخیر پر عمر بن عبدالعزیزؒ ہوئے اور میں امید کرتا ہوں کہ دوسری صدی کے اخیرمیں امام شافعیؒ ہوں گے اور امام بیہقیؒ نے نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا، اﷲتعالیٰ ہر صدی کے اخیر پر ایک ایسے عالم کو مقرر کرتا رہے گا جو لوگوں کو نیکی کی تعلیم دے گا اور رسول اﷲﷺ سے جھوٹ کو دور کرے گا۔ ہم نے غور کیا تو پہلی صدی کے اخیر میں عمر بن عبدالعزیزؒ اور دوسری صدی کے اخیرمیں امام شافعیؒ (اس شان کے مالک نظر آتے) ہیں۔ فاذا فی رأس