انتقام لینے کیلئے ان تمام الزامات کی تصدیق فرماتے جو یہود کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ علیہا السلام پر لگائے جارہے تھے۔ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اس طرح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت جب ایک شریف انسان سے باقی نہ رہتی تو انہیں خدا ماننے کا سوال کیونکر باقی رہتا؟ عیسائیوں کو تبلیغ کے میدان میں شکست دینے کے علاوہ اس طرح یہود کی بھی تالیف قلوب ہوتی اور ان کے اسلام سے قریب تر آنے کے امکانات قوی ہو جاتے… لیکن نبوت صادقہ ہتھکنڈے باز نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مدمقابل کے ساتھ اس قسم کی سیاسی چالبازیوں سے نبردآزما نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ علیہما السلام کو وہ مقام دیا جس کے وہ اہل تھے۔ ایک طرف یہود کے بہتانات اور مفتریات کی تردید کی دوسری طرف عیسائیوں کے غلط مزعومات کا باطل ہونا واضح کیا۔ باطل کی تردید اور حق کا اثبات کر کے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ اب قرآن پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت اور تقدیس کا بیان کن لفظوں میں کیا ہے۔ سنئے:
تحسین ہونے لگے گی۔ اس لئے مرزاقادیانی نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کام شروع کیا اور پھر قلم کی وہ جولانیاں دکھائیں کہ پناہ بخدا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی کی توہین میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ دشنام دہی اور بہتان پردازی میں انہوں نے یہودیوں کو بھی مات کر دیا۔
یوں تو مرزاقادیانی کا قلم سنجیدگی اور متانت سے عاری ہے۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ جو سوقیانہ انداز انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختیار کیا ہے اس کو دیکھ کر تو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ یہ شخص اپنے دل کے کسی گوشہ میں اﷲ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں کے لئے کوئی محبت اور عقیدت رکھتا ہے۔ ہمیں تو ان کے حوالے نقل کرنا بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ لیکن نقل کفر کفر نہ باشد۔ لیجئے چند حوالے پیش خدمت ہیں۔
(۱)اﷲتعالیٰ نے روح القدس یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قوت عطاء کی۔ ’’ایدناہ بروح القدس (بقرہ)‘‘
(۱)’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک درماندہ انسان تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۸۸، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸)