کے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کی ہو کہ دیکھئے صاحب! صاف طور پر جتلا دیا ہے کہ وہ آنے والا مسیح اصل مسیح نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس امت میں ہوگا۔ مرزاقادیانی نے یہ مطلب نکالنے کے لئے حدیث کے سیاق کو نظرانداز کیا۔ عربی گرائمر کے قواعد کو پس پشت ڈالا۔ چودہ سوسال کے علماء امت کے اقوال کو بالائے طاق رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذخیرۂ احادیث کو چھوڑا۔ ہم اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ جو کچھ کہا جاچکا ہے اسی کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم وغیرہ کی دوسری روایات جو نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں آئی ہیں ان میںفرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شہر میں شرقی منارہ پر نزول فرمائیں گے۔ لیکن یہاں ابن ماجہ وغیرہ کے حوالوں سے جو روایتیں نقل کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیت المقدس میں تشریف لائیں گے۔ یہ کیا قصہ ہے؟ اس سوال کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں دیتے۔ بلکہ حضرت ملا علی قاریؒ کا جواب نقل کرتے ہیں ان کی علمی وجاہت قادیانیوں کے ہاں بھی مسلم ہے۔ لیجئے سنئے! وہ فرماتے ہیں: ’’معاملہ کی ترتیب یوں ہوگی کہ پہلے امام مہدی حرمین شریف میں ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ بیت المقدس آجائیں گے تو دجال آجائے گا اور اسی حالت میں ان کا محاصرہ کر لے گا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق (شام) کے مشرقی منارہ پر اتریں گے اور دجال سے لڑنے کے لئے روانہ ہوں گے تو وہاں پہنچ کر فوراً ایک ہی وار سے اس کو قتل کر دیں گے اور اس کا یہ حال ہوگا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو وہ پگھلنے لگ جائے گا جیسا کہ نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی سے جا کر ملیں گے۔ اس وقت نماز کی تکبیر ہو چکی ہوگی۔ حضرت مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کریں گے تو وہ یہ کہہ کر انکار کر دیں گے کہ اس نماز کی تکبیر آپ کے لئے کہی گئی ہے۔ آپ ہی امام بننے کے حقدار ہیں۔ وہ اقتداء کریں گے تاکہ عملاً ظاہر ہو جائے کہ ان کی یہ آمد ہمارے نبیﷺ کے پیروکار کی حیثیت سے ہوگی۔‘‘ (شرح فقہ اکبر ص۱۳۶)
اس کی مثال یوں سمجھئے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ:
الف… قرآن پاک ماہ رمضان المبارک کی شب قدر میں نازل ہوا۔
ب… قرآن پاک تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ تئیس سال کے عرصہ میں اس کا نزول ختم ہوا۔
تو ان دو باتوں میں مطابقت یوں دی جاتی ہے کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن