فبینماہم قد تقدم مر یصلی بہم الصبح اذ نزل علیہم عیسیٰ بن مریم الصبح فرجع ذالک الامام ینکص یمشی القہقویٰ لیتقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ ثم یقول لہ تقدم فانہا لک اقیمت فیصلی بہم امامہم (ابن ماجہ ص۳۰۸)‘‘ {ان (مسلمانوں) کا امام مہدی ہوگا۔ وہ ایک نیک مرد ہوگا۔ اس دوران میں کہ وہ صبح کی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھ چکا ہوگا تو حضرت عیسیٰ بن مریم صبح کے وقت تشریف لے آئیں گے۔ وہ امام الٹے پاؤں چل کر پیچھے کو ہٹ جائے گا۔ تاکہ حضرت عیسیٰ آگے بڑھیں تو حضرت عیسیٰ اپنا ہاتھ اس کے کندھوں کے درمیان رکھیں گے اور فرمائیں گے تم آگے بڑھو۔ یہ تکبیر تمہارے لئے کہی گئی ہے تو ان کا اپنا امام انہیں نماز پڑھا دے گا۔}
۴… ابوعمرو دارمی کے حوالہ سے علامہ ابن حجر مکیؒ نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ میری امت کا ایک گروہ حق کی خاطر لڑتا رہے گا۔ حتیٰ کہ صبح کے وقت بیت المقدس میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام تشریف لے آئیں گے۔ وہ مہدی کے پاس اتریں گے۔ ان سے کہا جائے گا اے اﷲ کے نبی! آگے بڑھ کر ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ فرمائیں گے اس امت کے آدمی ایک دوسرے پر امیر ہوتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ حدیثیہ ص۳۲)
ان روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نزول مسیح علیہ السلام کے وقت مسلمانوں کے امیر اورامام حضرت مہدی ہوں گے۔ ان کے مناقب اور مفاجر میں ایک بات یہ بھی شامل ہوگی کہ اﷲ کے ایک پیارے نبی ان کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں۔ اسی مضمون کو ایک روایت میں جسے بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے یوں تعبیر فرمایا گیا ہے: ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم (بخاری ج۱ ص۴۹۰، مسلم ج۱ ص۸۷)‘‘ {یعنی رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ تم میں ابن مریم نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔}
اس حدیث سے دو باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آنے والے ابن مریم اس امت میں سے نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ جس وقت وہ آئیں گے تو مسلمانوں کے امام اسی امت کے ایک فرد ہوں گے اور دوسری احادیث میں تصریح ہے کہ وہ امام مہدی ہوں گے۔
صحیح مسلم میں بعض راویان حدیث کی مہربانی سے الفاظ میں کچھ تغیر وتبدل ہوگیا ہے۔ حالانکہ صحیح بخاری میں صرف یہی الفاظ آئے ہیں جو اوپر نقل ہوچکے ہیں۔ مسلم میں ان الفاظ کے علاوہ ’’فامکم منکم‘‘ اور ’’فامکم‘‘ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ ان الفاظ کا یہ مطلب پھر بھی کسی