اس موقع پر یہ بتانا مناسب ہوگا کہ صحیح مسلم (کتاب الفتن) میں چند روایات آئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ قیامت سے پہلے مسلمانوں کی کافروں (رومی عیسائیوں) سے خونریز لڑائی ہوگی۔ بہت سے مسلمان شہید ہوںگے۔بالآخر اﷲ تعالیٰ انہیں فتح دے گا۔ ایک ساحلی شہر کراماتی انداز میں فتح ہوگا۔اسی دوران میں یہ خبر پھیلے گی کہ دجال نکل آیا ہے۔مسلمان سب کچھ چھوڑ کر میدان جنگ سے اپنے گھروں کولوٹ آئیں گے۔ (دیکھئے مسلم ج۲ص۳۹۲)
علامہ ابن حجرمکیؒ نے (فتاویٰ حدیثیہ ص۳۳) میں خطیب کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے۔اس میں تصریح ہے کہ رومیوں کے ساتھ ہونے والی اس لڑائی کے وقت مسلمانوں کا جو فرمانروا ہوگا۔وہ آنحضرتﷺ کی اولاد میں سے اورحضورﷺ کا ہم نام ہوگا۔ وال من عترتی یواطی اسمہ اسمی…اس روایت سے واضح ہوگیا کہ مسلم کی محولہ بالا روایات کا تعلق امام محمد مہدی سے ہی ہے۔
قصہ مختصر!امام مہدی کے قتال کے بارے میں حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ ان کے باوجود مرزاقادیانی اگر ’’خونی مہدی‘‘ کی پھبتی کستے ہیں تو یہ ان کا حصہ ہے۔ اب وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں کہ ہم ان سے بات کرتے۔ جو لوگ ان کے پیچھے اندھا دھند چل رہے ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ عقل وخرد سے کام لیں۔
مہدی کی امامت کا قصہ
تمہیداً اس سلسلہ میں دو باتیں ذکر کر دی جائیں۔ ایک یہ کہ ’’امام‘‘ کے لفظی معنی پیشوا کے ہیں۔ اسلامی لٹریچر میں یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو وہ جس کے ہاتھ میں مسلمانوں کے دینی اوردنیوی امور کی قیادت ہو۔ دوسرا وہ جس کی اقتداء اور پیروی نماز میں کی جائے۔ علماء اسلام نے ان دونوں معنوں میں فرق ظاہر کرنے کے لئے ’’امامت کبریٰ‘‘ اور ’’امامت صغریٰ‘‘ کی اصطلاحیں وضع کی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابتداء اسلام (یعنی دور صحابہؓ) میں خلفاء راشدینؓ جہاں دوسرے ملی اور ملکی امور میں امت کے قائد اور رہنما ہوتے تھے۔ وہاں وہ جمعہ اور عیدین کے علاوہ پنجگانہ نماز میں بھی امامت فرماتے تھے۔ بعد کے خلفاء نے پنجگانہ نماز کی امامت کا اہتمام تو چھوڑ دیا۔ لیکن عیدین وغیرہ کی امامت خود کرتے رہے۔ صدیوں تک بلاد اسلامیہ میں یہی معمول رہا۔
اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف! گزشتہ اوراق میں آپ بحوالہ حدیث پڑھ چکے ہیں کہ