ارشاد ربانی:’’وقاتلو ھم حتیٰ لاتکون فتنہ ویکون الدین ﷲ فان انتھوافلا عدوان الا علی الظٰلمین (بقرہ:۱۹۳)‘‘
ارشاد نبوی نمبر ۱
’’لاتزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین الی یوم القیامۃ (مسلم ج۱ص۸۷)‘‘{میری امت کا ایک گروہ حق کی خاطرلڑتارہے گا اورقیامت کے دن تک وہ رہے گا۔}
ارشاد نبوی نمبر۲
’’الجھاد ما ض مذبعثنی اﷲ الی ان یقاتل اخر امتی الدجال۰ لایطبلہ جورجائرولا عدل عادل (ابوداؤد ج۱ص۳۴۲)‘‘{(رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا)جہاد کا سلسلہ میری بعثت کے زمانے سے جاری ہے۔یہاں تک کہ میر ی امت کا آخری حصہ دجال سے لڑائی کرے گا اوردرمیان میں نہ تو کسی ظالم(بادشاہ) کا ظلم اسے ختم کرے گا نہ کسی نیک کی نیکی۔}
مطلب یہ کوئی بادشاہ اگر فاسق فاجر ہوگا،تب بھی جہاد ہوتارہے گا اورکوئی صالح اور متقی ہوگا ،تب بھی بدی اورظلم کومٹانے کے لئے جہاد کا سلسلہ قائم رہے گا۔
ارشاد نبوی نمبر۳
’’لاتزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناوا ھم حتیٰ یقاتل اخرھم المسیح الدجال (ابوداؤد ج۲ص۳۳۵)‘‘
ان آیات اوراحادیث سے بالکل واضح ہوگیا کہ جہاد کا حکم ابدی ہے۔ خروج دجال کے وقت تک چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری کا سلسلہ قائم رہے گا اوراس کا دفاع بھی ہوتارہے گا۔ اب جو احادیث خاص طور پر امام مہدی کے بارے میں یہ بتاتی ہیں کہ وہ شمشیر و سناں لے کر میدان میں آئیں گے۔ تو ان احادیث کو ’’افسانہ‘‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ کیا اس لئے کہ ان حدیثوں کو تسلیم کرنے سے آپ کے دعوے پر زد پڑتی ہے؟ آپ ان صریح نصوص کو نہ تو کتابوں سے نکال سکتے ہیں اور نہ ان میں آپ کی کوئی تاویل چل سکتی ہے:
بروایں دام برمرغ وگرنہ
کہ عنقارا بلند ہست آشیانہ