اور اعلاء کلمتہ اﷲ کے لئے قتال ہی ہورہاتھا۔یعنی عہد رسالت (علی صاحباالصلوٰۃ والسلام) خلافت راشدہ اوراس کے بعد مرزاقادیانی کی آمدتک، کیااس وقت تک نور خدا کی بجائے ’’ظلمت‘‘ برس رہی تھی؟جاہل آدمی کو بات کرنے کاسلیقہ بھی نہیں ہے۔اقبال مرحومؒ ایک شعر میں بڑی پتے کی بات کہہ گئے ہیں:
جنگ مومن سنت پیغمبری است
جنگ شاہان جہاں غارتگری است
آئیے اس سلسلہ میں کتاب وسنت کے احکام سن لیں:
اگرہم مسئلہ جہاد کے متعلق مفصل گفتگو شروع کریں تو یقینا بات بہت لمبی ہو جائے گی۔جس کی ان اوراق میںگنجائش نہیں ہے۔تاہم ’’مالایدرک کلہ لایترک کلہ‘‘کچھ نہ کچھ عرض کردینا ضروری ہے۔
جو شخص قرآن پاک کو سمجھ سکتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ چند آیات ہی نہیں بلکہ بعض بڑی بڑی سورتیں احکام جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور یہ احکام ابدی ہیں جو تاقیامت نافذ رہیں گے اورآنحضرتﷺ نے اپنے فرامین سے ان کی ابدیت پرمہر لگا دی ہے۔ چند آیات اور احادیث پیش ہیں:
ارشاد ربانی:’’اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا۰وان اﷲ علی نصرھم لقدیر۰الذین اخرجوامن دیارھم بغیرحق الا ان یقولوا ربنااﷲ (الحج:۳۹،۴۰)‘‘{وہ لوگ جن کے ساتھ لڑائی کی جاتی ہے۔انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔کیونکہ ان پربڑاظلم ہوا ہے اوراﷲ یقینا ان کی امداد کرنے پرقادر ہے۔ یہ وہی لوگ تو ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا۔ان کاجرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہتے ہیں،ایک اﷲ ہمارا رب ہے۔}
اس فرمان خداوندی سے واضح ہو جاتا ہے کہ شریعت میں قتال کی اجازت ظلم کو روکنے کے لئے جوابی کارروائی کے طورپر دی گئی ہے۔آج بھی جہاں یہ حالات پائے جائیں گے۔یقینا وہاں قتال کی اجازت ہو گی۔ قارئین کرام پہلی جنگ عظیم سے لے کر اب تک کے حالات سامنے رکھیں ،ترکی سلطنت کاتیاپانچہ کیونکرہوا؟ مصرپرانگریزوں کا،شام پرفرانس کا، طرابلس پراٹلی کا تسلط