صحابہؓ موجود ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری شرح بخاری میں امام ربانی نے مکتوبات میں اور مولانا عبدالعزیز پرہاروی نے نبراس میں لکھا ہے کہ مہدی کے بارے میں روایات معنے کے اعتبار سے تواتر تک پہنچ جاتی ہیں۔ (اگرچہ لفظاً وہ اخبار آحاد ہیں۔)توکیا اتنی روایات کو نظرانداز کرنے کی شرعاً کوئی گنجائش ہے؟
اگر مہدی کے بارے میں نقل شدہ روایات کا ایک گروہ نے غلط استعمال کیا ہے یا اس کی تفصیلات میں کوئی اختلاف رونماہوگیا ہے تو نہ یہ کوئی علمی طریقہ ہے اور نہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اصل حقیقت ہی کا انکار کردیا جائے۔ اگر انکار کی اسی وجہ کو معقول قرار دیا جائے تو پھر دین کے بیسیوں مسائل سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگوں (جن میں مرزاغلام احمد قادیانی بھی شامل ہیں)کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ حدیث کی دومعتبر ترین کتابوں یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں آنے والے مہدی کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ مہدی کے نام سے کوئی روایت ان کتابوں میں نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے متعلق کوئی بات بھی ان میں نہیں ہے۔ بلکہ ایسی متعدد روایات ان کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں امام مہدی کا اجمالی ذکر یا ان سے متعلق بعض علامات کا بیان ہے۔آگے یہ روایات آرہی ہیں۔
اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم قارئین کو ایک قاعدے سے مطلع کردیں۔ قرآن وحدیث کا یہ عام دستور ہے کہ ایک چیز ایک مقام پر اجمالاً مذکور ہوتی ہے۔لیکن دوسری جگہ موقع محل کے لحاظ سے ضرورت کے مطابق اس کی تفصیل آجاتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱… ’’منھم من کلّمہم اﷲ (سورۂ بقرہ:۲۵۳)‘‘ میں اجمال اور ’’کلم اﷲ موسیٰ تکلیما (سورۂ النسائ:۱۶۴)‘‘میں نام کی وضاحت موجود ہے۔
۲… ’’واذالنون اذذھب مغاضبا (سورۂ انبیائ:۸۷)‘‘میں یونس علیہ السلام کا نام نہیں آیا۔صرف ’’مچھلی والا‘‘کہہ دیاگیا ہے۔لیکن سورئہ صفت میں نام کی تصریح موجود ہے:’’وان یونس لمن المرسلین۰اذابق الی الفلک المشحون‘‘
۳… سورئہ الشمس میں قوم ثمود اوراس کی تباہی کاذکر آیا ہے۔ لیکن اس کے پیغمبر کا نام نہیں آیا۔ صرف اتنا فرمایا گیا:’’فقال لھم رسول اﷲ‘‘سورئہ ہود اور شعراء وغیرہ میں نام کی