خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کروہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کی آواز آئے گی کہ ’’ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اورمرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میںدرج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۴۱،خزائن ج۶ص۳۳۷)
صحیح بخاری کوئی نایاب کتاب نہیں ہے۔ہر دینی در س گاہ اور ہر عالم کے ہاں موجود ہے۔ یہ کتاب ۱۱۳۰صفحات پر مشتمل ہے۔ جن میں ۷۲۷۵ حدیثیں درج ہں۔ کتاب لے کر دیکھ لیجئے۔کیا مرزا قادیانی کی محولہ حدیث کا کہیں کوئی نشان ملتاہے؟…ہرگز نہیں ملے گا۔ چلئے،یوں اگر آپ نہیں سمجھ سکے تو مرزاقادیانی کی تردید خود ان کی زبانی سنیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں،اسی وجہ سے امامین حدیث (بخاری و مسلم) نے ان کو نہیں لیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۶۸،خزائن ج۳ص۴۰۶)
جب مرزاقادیانی خود لکھ چکے ہیں کہ بخاری ومسلم میں مہدی کے بارے میںکوئی روایت نہیں ہے تو پھر ’’ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘والی روایت بخاری سے کیونکر نکال لائے ؟ سچ ہے کہ دروغ گوراحافظہ نباشد۔
ایک ضروری وضاحت
علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح العقائد النسفیہ میں،مولانا عبدالعزیز صاحب پرہارویؒ نے شرح الشرح موسومہ نبراس میں،اوردیگر علماء اسلام نے بھی بیان کیا ہے کہ اعتقادی مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن میں قطعیت اور یقین کے ساتھ ایمان لانا مطلوب ہوتا ہے۔ ایسے مسائل میں دلائل بھی قطعی اور یقینی،مثلاً قرآن کی آیت ،حدیث متواتر ،اجماع امت درکار ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ مسائل جو مرتبہ میں ان سے فروتر ہوتے ہیں۔ان میں اخبار آحاد (وہ حدیثیں جو تواتر یا شہرت کی حد تک نہ پہنچی ہوں) سے بھی استدلال صحیح ہوگا۔
ظہورمہدی کا مسئلہ بھی اسی دوسری نوعیت کے مسائل سے ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسے اصولی عقائد جن پر اسلام کا دارومدار ہے،کی سی حیثیت تو حاصل نہیں ہے۔ لیکن اسے اعتقادی مسائل کی فہرست سے بالکل خارج کردینا اوراس کے بارے میں وارد شد ہ احادیث کو بے التفاتی کی نذر کر دینا بھی قطعاً غلط ہوگا۔ اس گناہ کی جرأت وہی شخص کر سکتا ہے جو علم حدیث اور عقائد سے ناواقف ہو۔ علامہ شوکانی کے بیان کے مطابق اس بارے میں پچاس مرفوع حدیثیں اور۲۸آثار