کتاب سے ہے اوراس بارے میں علماء محدثین کی تحریریں تو ایک طرف رہیں،آپ کے مزید اطمینان کے لئے ہم دو تحریریں خود مرزا قادیانی کی نقل کر دیتے ہیں:
۱… ’’آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا…ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جائے گا۔یعنی سنت اﷲ کے موافق آسمانی نظام قائم ہو گا اورایک آسمانی مصلح آئے گا۔ درحقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے۔ کیونکہ جب فتنہ کی بنیاد نصاریٰ کی طرف ہو گی اورخداتعالیٰ کا بڑا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی صلیب کی شان کوتوڑے اس لئے جو شخص نصاریٰ کی دعوت کے لئے بھیجا گیا بوجہ رعایت اس قوم کے جو مخاطب ہے،اس کا نام مسیح اور عیسیٰ رکھاگیا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۱۶،۱۷، خزائن ج۶ص۳۱۲)
۲… ’’چونکہ قرآن شریف سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ ظلمت عیسائیوں کی طرف سے ہوگی تو ایسا مامور من اﷲ بلاشبہ انہیں کی دعوت کے لئے اورانہی کے فیصلہ کے لئے آئے گا۔ ‘‘
(شہادت القرآن ص۲۴،خزائن ج۶ص۳۲۰)
جب مسیح موعود کی آمد عیسائیوں کے لئے ہے اور وہی اس کے مخاطب ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مرزا قادیانی مسیح موعود کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کو دعوت دیتے پھرتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیرت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ کسی عامی جاہل آدمی کو نہیں بلکہ بلند پایہ علماء اورمحدثین کو نام لے لے کر اپنا مخاطب بناتے ہیں۔ ایک عبارت ملاحظہ ہو۔مرزا قادیانی اپنی کتاب اربعین (جو۱۹۰۰ کی تصنیف ہے)میں لکھتے ہیں: ’’اس بات کو قریباً نو برس کا عرصہ گزر گیا ہے جب میں دہلی گیا تھا اورمیاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ص۱۲،خزائن ج۱۷ص۴۴۱)
آخر ایک مسلمان ،اورصرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بہت بڑے پیشوا اور قرآن و حدیث کے مستند۱؎عالم کو اسلام کی دعوت دینے کے کیامعنے ہیں؟ آپ جائیے، اپنا کام کیجئے۔ جن لوگوں
۱؎ مرزا قادیانی کی دوسری کمزوریوں کے علاوہ ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان میں ضبط نفس او رتحمل بالکل نہیں۔ بقول شاعر:
نہ بینی کہ چوں گر بہ عاجز شود
برآرد بچنگال چشم پلنگ
علماء کے مقابلہ میں جب وہ استدلال کی حد تک اپنے آپ کو بے چارہ پاتے ہیں تو پھر بے نقط سنانے پر اتر آتے ہیں۔چنانچہ وہ میاں نذیرحسین صاحب محدث کو مخبوط الحواس ، نالائق ، دجال اورگمراہ وغیرہ کے القاب سے نوازتے ہیں۔ حضرت الشیخ مولانا سید مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ اوردیگر اکابرکے بارے میں تو اس سے بھی دو قدم آگے چلے گئے ہیں۔