کچھ سمجھ میں آیا؟یہ کیا قصہ ہے کہ مرزا قادیانی کبھی تومسیح موعود کی آمد کا وقت چودہ سو برس بعد بتاتے ہیں اورکبھی بارہ سو برس کے بعد تیرھویں صدی میں؟اب ذرا مرزاقادیانی کی سوانح عمری پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ ان کی پیدائش ان کے اپنے بیان کے مطابق ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء (کتاب البریہ ص۱۴۶، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷ حاشیہ) بمطابق ۱۲۵۴ ھ یا ۱۲۵۵ھ میں ہوئی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ انہوں نے ۱۸۷۰ء بمطابق ۱۲۸۶ھ میں کیا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب اربعین مصنفہ ۱۹۰۰ء میں لکھتے ہیں:’’یہ دعویٰ منجانب اﷲ ہونے اور مکالمات الٰہیہ کا قریبا ًتیس برس سے ہے۔‘‘
(اربعین نمبر۳ص۶، خزائن ج۱۷ص۳۹۱)
ایک اورکتاب میں وہ لکھتے ہیں:’’ٹھیک بارہ سو نوے۱۲۹۰ھ میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پا چکاتھا۔ ‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۰،خزائن ج۲۲ص۲۰۸)
کیا پیشگوئی میں ترمیم کی ضرورت اسی لئے پیش آئی تھی کہ مرزا قادیانی کے اپنے دل میں مسیح بننے کا شوق چٹکیاں لے رہاتھا۔ بہر حال آمد اورظہور خواہ بمعنے پیدائش لیں خواہ بمعنے بعثت۔ مرزا قادیانی کی آمد تیرھویں صدی میں ہوئی۔ تو سوال یہ ہے کہ جب قرآن شریف نے آمد مسیح کی میعاد چودہ سو برس مقرر کی تھی۔ مرزا قادیانی ۱۲۸۷ھ یا ۱۲۹۰ھ میں آکر مسیح موعود کیونکر ہو سکتے ہیں؟ اورجب مرزا قادیانی بار بار اپنی شان میںمثیل مسیح کا راگ الاپتے رہے ہیں اوران کی آمد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد ہوئی تھی۔ تو یہ قبل از وقت کیونکر آگئے؟ وہ مماثلت تامہ کہاں غت ربود ہوگئی؟ علاوہ ازیں مرزاقادیانی کا یہ فرمان ریاضی کے کون سے فارمولے پرصحیح اترتا ہے کہ:’’مجھے عین چودھویںصدی کے سرپر جیسا کہ ابن مریم چودھویں صدی کے سر پر آیا تھا،مسیح الاسلام کر کے بھیجا۔‘‘ (کشتی نوح ص۵۰،خزائن ج۱۹ص۵۴)
قادیانیوںکو چاہئے کہ یا تو ہمیں تسلی بخش جواب دیں یا پھر اپنے عقائد پر نظرثانی کریں۔ اس زمانے میں ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ آخر پڑھے لکھے طبقہ کو کب تک بے وقوف بنایا جاتا رہے گا؟
مرزا قادیانی کی بوقلمونی اور نیرنگی کی دو چار مثالیں ہوں تو حیطۂ تحریر میں بھی لائی جا سکیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ آوے کاآوہ بگڑا ہوا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر کرشمہ دیکھنے میں آتا ہے۔ کہاں تک آدمی ان طلسم کاریوں کے نظارے کئے جائے۔ ہم یہاں پر ایک مثال اور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مثل مشہور ہے ’’نہ رہے گا بانس،نہ بجے گی بانسری‘‘ مرزاقادیانی نے جب یہ دیکھا کہ