۲… ’’لیترکن القلاص فلایسعیٰ علیھا (حدیث)‘‘{اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی ان پرسعی نہ کی جائے گی۔}
یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیںکہ اس پیشگوئی سے مقصود حضورﷺ کا یہ ظاہر فرمانا ہے کہ قیامت کے قریب نئی نئی سواریاں وجود میں آئیں گی۔ اس وجہ سے اونٹنیوں کا استعمال متروک ہوجائے گا۔لیکن مرزاقادیانی کے دماغ کی رسائی ملاحظہ ہو۔لکھتے ہیں: ’’یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ ترک کئے جائیںگے اور قرآن شریف میں بھی وارد تھا کہ ’’واذا العشار عطلت‘‘اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سرگرمی سے ریل تیار ہورہی ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ص۱۳،خزائن ج۱۷ص۳۹۹)
اس سے قطع نظر کہ حجاز میں ریل تیار ہوئی یا ریلوے لائن۔ ممکن ہے کہ مرزا قادیانی کو ان دو لفظوں میں فرق معلوم نہ ہو لیکن ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں ریل کا تیار ہونا مرزا قادیانی نے خواب میں دیکھا تھا یا بیداری میں؟ ترکوںکے دور میں مدینہ منورہ تک ریلوے لائن بچھائی گئی تھی۔ لیکن قادیانی مسیح کی برکت یوں ظاہر ہوئی کہ ترکی سلطنت ۱؎ کا تیاپانچا ہونے کے بعد یہ منصوبہ ختم ہوگیا اورآج تک پھر کسی نے نام نہیں لیا۔
کوئی سخن پروریہ نہ کہے کہ چلئے صاحب ریل گاڑی نہیں توموٹریں اوربسیں تو چل رہی ہیں۔ پھر بھی مرزا قادیانی کی پیشگوئی پوری ہوگئی۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح پرحدیث کی پیش گوئی تو پوری ہوگئی ہے۔لیکن ہمیں تو اعتراض مرزاقادیانی کی تشریح وتعبیر پر ہے او ر وہ اعتراض اب بھی باقی ہے۔کیونکہ ان کے نزدیک ریل گاڑی کا تیار ہونا اس پیشین گوئی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاداسلامیہ میں قریباً سو سال سے عمل میں آرہا ہے۔ لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کی ریل تیار ہونے سے پوری ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہوکر مدینہ میں آئے گی۔وہی مکہ معظمہ میں آئے گی اور امید ہے کہ بہت جلد اورصرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا… یہ کام بڑی سرعت سے ہورہا ہے اورتعجب نہیں کہ تین سال کے اندراندر یہ ٹکڑا مکہ اورمدینہ کی راہ کاتیار ہو جائے۔ ‘‘ ( تحفہ گولڑویہ ص۶۴، خزائن ج۱۷ص۱۹۵)
۱؎ یہ ایک ناخوشگوار تاریخی واقعہ ہے کہ قادیانی،ترکوں کی اسلامی سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی فتح یابی پرخوشیاں مناتے رہے۔