۲… مرزا قادیانی بزعم خویش مسیح موعود کے تحت پرجلوہ افروز ہوکر ترنگ میں فرماتے ہیں:’’ اب وہ (قرآن)ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا۔ہاں وہ ایک شیر کی طرح میدان میںآئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھا جائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸۱، خزائن ج۳ ص۴۶۷)
اے کاش! ہم بھی تو دیکھتے کہ مرزاقادیانی نے قرآن کریم کو جو خزانہ لوگوںمیں تقسیم کیا ہے۔ان میں کتنے ہیں جو غزالیؒ اوررازیؒ کی نکتہ سنجی،بیضاویؒ اورزمخشریؒ کی دقیقہ رسی، بغویؒ اور سیوطی کی وسعت لے کر سپہر علم پر چمکے ہوں۔ دور نہ جائیے،اسی دور میں حجۃ الاسلام علامہ انور شاہؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اورامام الہندمولانا ابوالکلام آزادؒ تو بڑے پایہ کے لوگ گزرے ہیں۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدعثمانیؒ کا علم وفضل اورخطیب الامت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی سحر بیانی توبہت دور کی بات ہے۔قادیانی مسیح کے خوشہ چینیوں میں کتنے ایسے فاضل ہوئے ہیں جو پروفیسر خالد محمود، مولانالال حسین اخترؒ یاکم از کم مولانا عبدالرحیم اشعرؒؔ ہی سے سر ملا سکیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا قادیانی مسیح آکر واپس چلے گئے۔ لیکن علوم قرآنی کا گنجینہ تقسیم نہیںہوسکا؟
۳… مرزا قادیانی کو توفی کا لفظ قرآن میں گننے۱؎ کی فرصت مل گئی۔لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اسی قرآن میں مال کا لفظ بیسیوں جگہ آیا ہے اور کہیں بھی بمعنی قرآن استعمال نہیں ہوا۔ یہ تشریح سراسر مرزا قادیانی کے ذہن کی اختراع ہے۔
۴… آپ پوری حدیث پڑھ لیجئے۔آپ کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ مرزا قادیانی کی جو تشریح اوپر نقل کی گئی ہے،وہ قابل قبول ہے یا نہیں۔ پورا متن یہ ہے:’’یفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیھا (بخاری ج۱ص۴۹۰)‘‘
مال عام ہو جائے گا،حتیٰ کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوگا۔
آنحضرتﷺ کا مقصد یہ فرمانا ہے کہ نزول مسیح کا زمانہ زرطلبی کی بجائے خدا طلبی کا زمانہ ہوگا۔کجا حضورﷺ کا یہ ارشاد اورکجا مرزا قادیانی کی وہ تشریح۔
۱؎ مرزاقادیانی نے ازالہ اوہام میں بتایا ہے کہ توفی کے مختلف صیغے قرآن شریف میں چوبیس مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔