آمدآسمان سے ہوگی۔ پھر بھی اگر وہ انجام آتھم وغیرہ میں یہ کہتے ہیں کہ مسیح کی آسمان سے آمد کا لفظ کہیں نہیں ہے تو اس ڈھٹائی اوردروغ گوئی کاکیاجواب ہو؟
دوسری مثال ،مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’آپ لوگوں کے پاس بجز ایک لفظ نزول کے کیا ہے لیکن اگر اس جگہ نزول کے لفظ سے یہ مقصود تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دوبارہ آئیںگے تو بجائے نزول کے رجوع کہنا چاہئے تھا۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۶،خزائن ج۱۴ص۳۹۲،انجام آتھم ص۱۱۱،خزائن ج۱۱ص ایضاً)
اب آپ تفسیر ابن کثیر اٹھا کر دیکھئے ،اس میں دو جگہ علامہ ابن کثیرؒ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے یہودیوں سے فرمایا:’’ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ (ابن کثیرج۱ص۳۶۶)‘‘{یقینا عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور یقینا وہ قیامت سے پہلے تمہارے پاس لوٹ کر آنے والے ہیں۔}
قادیانیو!آپ نے مرزا قادیانی کا ارشاد پڑھ لیا ہے۔ا س سے اتنا توآپ نے سمجھ لیا کہ اگر واقعی حدیث میں ’’رجوع‘‘ کا لفظ مل جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے دوبارہ آمد ماننی پڑے گی۔ حوالہ ہم نے پیش کردیا۔ اب تو مان جائیے کہ مسیح موعود کی کرسی پر مرزا قادیانی نہیں آسکتے۔ بلکہ جیسا کہ امت مسلمہ کاعقیدہ ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی پیغمبر ہی کے لئے مخصوص ہے۔
تیسری مثال:مرزا قادیانی ایک حدیث کا حوالہ دے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ اس وقت حیات مسیح علیہ السلام ہمارے نزدیک خارج از بحث ہے۔ وہ زندہ ہیں یا نہیں،اس کوچھوڑئیے۔ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے اپنی مطلب برآری کے لئے کیونکر حدیث کابھرکس نکالا ہے۔ کہتے ہیں: ’’ایک اور حدیث بھی مسیح ابن مریم کی وفات ہو جانے پردلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت وﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی؟تو آپؐ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام نبی آدم پر قیامت آجائے گی اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سو برس کے عرصہ سے کوئی شخص زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی بناء پر اکثر علماء و فقراء اسی طرف گئے ہیں کہ خضر بھی فوت ہوگیا کیونکہ مخبر صادق کے کلام میں کذب جائز نہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے علماء نے اس قیامت سے بھی مسیح کو باہر رکھ دیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۵۲،خزائن ج۳ص۲۲۷)