اس عبارت میں مرزاقادیانی نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ ہم وہ اصل حدیث اور اس کا ترجمہ ان کی اسی کتاب ازالہ اوہام ہی سے نقل کرتے ہیںتاکہ حقیقت معلوم ہو سکے:’’عن جابر قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بشھر تسالونی عن الساعۃ وانما علمھا عنداﷲ واقسم باﷲ ما علی الارض من نفس منفوسۃ یاتی علیھا مائۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذ (رواہ مسلم)‘‘
’’روایت ہے کہ جابرؓ سے کہ کہا سنا میں نے پیغمبر خدا حضرت محمدﷺ سے،فرماتے تھے کہ مہینہ بھر پہلے اپنی وفات سے کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی اوربجز خدا کے کسی کواس کاعلم نہیں اورمیں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں جو پیدا کیاگیاہو اورموجود ہو اورپھر آج سے سو برس اس پرگزرے اوروہ زندہ رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۸۱،خزائن ج۳ص۳۵۸)
آپ حدیث کے لفظ ’’علی الارض‘‘(زمین پر) پر غور کیجئے۔ زبان نبوت سے یہ لفظ کیوں نکلا؟ کیا اتفاقی طور پر زبان پرآگیاتھا یا حضورکا مقصد ان انسانوں کو اس پیشگوئی سے خارج کرنا تھا جو حضورکے اس فرمان کے وقت زمین پر نہ تھے؟علماء اسلام کا جواب کتابوں میں موجود ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں تو دو مختلف رائیں پائی جاتی ہیں۔ ایک گروہ ان کی وفات کا قائل ہے اور دوسرا ان کوزندہ مانتا ہے۔مرزاقادیانی اگر شروح حدیث کو دیکھ لیتے توانہیں معلوم ہو جاتا کہ جو لوگ حیات خضر کے قائل نہیں۔ انہیں ’’علی الارض‘‘کی بناء پر یہ تاویل کرنا پڑی کہ وہ اس وقت زمین پر موجود نہیں تھے بلکہ کہیں سمند ر میں تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے بلکہ بالاتفاق علماء امت اٹھائے جانے کے بعد سے دوبارہ آنے تک وہ آسمان کے باشندہ ہیں۔اس لئے مذکورہ بالا پیشگوئی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’’قال الکرمانی لانقض بعیسیٰ علیہ السلام لکونہ فی السماء (فتح الودود)‘‘{علامہ کرمانی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے اس پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو آسمان میں ہیں۔}
مرزا قادیانی کے دعاوی کے سلسلہ میں ہم براہ راست انہی کی تحریروں کو زیربحث لارہے ہیں اورہمارے نزدیک کسی تحریک کے حسن و قبح کو معلوم کرنے کے لئے بنیادی گر یہی ہے