’’مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۵،خزائن ج۳ص۴۶۴)
’’قرآن کریم میں مسیح موعود کی نسبت کچھ ذکر ہے یا نہیں،اس کا فیصلہ دلائل قطعیہ نے اس طرح پردیا ہے کہ ضرور یہ ذکر قرآن میں موجود ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۱۴،خزائن ج۶ص۳۰۹)
سوال نمبر۲… کیا مسیح کی آمد پرایمان لانا ضروری ہے؟
جواب از مرزا قادیانی
’’جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو بلکہ صدہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے۔
’’حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت قال اﷲ اور قال الرسول کی باقی نہیں رہی۔یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں صحاح میں موجود ہیں۔ یہ تمام خبریں ہی غلط ہیں۔شاید ان کا ایسی باتوں سے مطلب یہ ہے کہ اس عاجز کے دعوے کو تحقیر کر کے کسی طرح اس کو باطل ٹھہرایا جائے ۔لیکن وہ اس قدر متواترات سے انکار کر کے اپنے ایمان کوخطرے میںڈالتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۵،خزائن ج۳ص۳۹۹)
’’ایمان کو خطرے میں ڈالنے‘‘کی مزید وضاحت مرزاقادیانی کی ایک اورعبارت سے ہوتی ہے۔لکھتے ہیں:’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے انکار کرتا ہے اورآنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔(دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹،خزائن ج۲۲ص۱۸۵)
ان دو مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ مرزا قادیانی شک وارتیاب کی وادی میں بھٹک رہے ہیں۔ جس شخص کا اپنا یہ حال ہو،وہ دوسرے کو یقین واذعان کیونکر دے سکتا ہے؟
تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک توپہلے رفو کرلے