یہی فریب خوردہ طبقہ دراصل آئندہ اوراق میں ہمارامخاطب ہے۔ اول الذکر گروہ سے اگرچہ ہم مایوس نہیں ہیں۔کیونکہ اسلام یاس وقنوط کا مخالف ہے:
نومید ہم مباش کہ رندان بادہ نوش
ناگہ بیک خروش بمنزل رسیدہ اند
مگر ہم زیادہ خوش فہم بھی واقع نہیں ہوئے۔ بہر حال اگر پیش نظر کتابچہ کو دیانت داری اور نیک دلی کے ساتھ پڑھاجائے تو ہمیں اﷲ سے امید ہے کہ جو یائے حق کو منزل تک پہنچنے میں اس سے کافی مدد ملے گی۔ وماذالک علی اﷲ بعزیز
لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم
اگر اﷲ کا ایک بندہ بھی باطل کوچھوڑ کر حق کی طرف آگیا تو یہ بات مصنف کے لئے باعث صد مسرت ہو گی۔ وہ سمجھے گا کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی۔’’ان ارید الا الاصلاح مااستطعت وما توفیقی الاباﷲ‘‘
شہزادی زیب النساء کے بارے میں کہیں پڑھاہے کہ اس کی شاعری کی دھوم مچی تو غالباً ایران کے بادشاہ نے سلطان عالمگیر کو لکھا کہ ہم اس شاعر کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے ہمارے پاس بھیج دیاجائے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ سلطان کی لڑکی ہے۔ عالمگیر ناراض ہوکر لڑکی کے پاس پہنچے اوربولے :کیا یہی دن دکھانے کے لئے تم نے شاعری کو اختیارکیاتھا؟دختر نیک اختر باادب بولی:حضور!ناراض نہ ہوں،اس بادشاہ کے جواب میں یہ شعر لکھ کر بھجوادیاجائے:
درسٰخن مخفی منہم چوں بوئے گل دربرگ گل
ہرکہ دیدن میل دارد ،درسخن بیندمرا
شاعر کے کمالات اورمحاسن اس کے کلام میں نظرآئیں یا نہ ،اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبولان الٰہی(حضرات انبیاء علیہم السلام اورعلماء وصلحا) کی عظمت ورفعت ان کے اقوال اور افعال سے نظرآجاتی ہے۔ اگر قارئین اس قاعدہ کو ذہن میں رکھ کوآئندہ اوراق کا مطالعہ کریں گے تو یقینا وہ اس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے کہ بانی فرقہ احمدیہ مرزاغلام احمد قادیانی جس طرح اﷲ کے دین کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں۔اس کے پیش نظر انہیں ایک عام مسلمان کی حیثیت بھی نہیں دی جا سکتی، چہ جائیکہ ایک نبی یا مجدد کا مقام دیا جائے۱؎۔
۱؎ یہ کتاب ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کے تاریخی فیصلے سے پہلے لکھی جاچکی تھی۔