یعنی خدا کو بھلا کر حب نفس اورحب دنیا انسان کے لئے جہنم تیار کرتے ہیں۔
مولانا سعید احمد اکبرآبادی انچارج شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۱۹۶۲ء میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے مونٹریل (کینیڈا) گئے۔ واپسی پر انہوں نے ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ایک اشاعت کے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’مونٹریل کا سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اورضخیم اخبار مونٹریل اسٹارہے۔ اس اخبار کے سنڈے ایڈیشن کے چار صفحے بلاناغہ بڑی پابندی کے ساتھ خالص مذہبی مضامین و مواعظ کے لئے وقف رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات اور رسائل میں بھی مذہبی مقالات و مضامین برابر شائع ہوتے ہیں۔ یہاں پروٹسٹنٹ کے مقابلہ میں کیتھولک عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ لوگ مذہب کے معاملہ میں بڑے کٹر اورسخت ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں جگہ جگہ ان کے اپنے سکول ہیں جہاں بچوں اوربچیوں کو مذہبی تعلیم لازمی طور پر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیوں میں بھی فیکلٹی آف تھیالوجی کے ماتحت مذہب کی اعلیٰ تعلیم اورریسرچ کا بندوبست ہے۔ مذہب یہاں کی زندگی میں کتنا دخیل ہے اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مونٹریل میں بازاروں، سڑکوں اورگلی کوچوں کے نام اکثر وبیشتر کسی بزرگ مذہبی شخصیت اورمقدس پیشوا کے نام پرہیں۔‘‘
یورپ اورامریکہ کی یونیورسٹیوں میں جگہ جگہ مستقل شعبہ دینیات (Divinity college)کا اہتمام وانصرام ہے اور یونیورسٹیوں کے احاطہ میں ان کی وہی اہمیت ہے جو سائنس اورآرٹس کے دوسرے شعبوں کی ہے۔ میں نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یونیورسٹی کے صدر دروازے پر ہی نہایت جلی قلم سے جو عبارت کندہ ہے۔اس میںلکھا ہواہے:یہ یونیورسٹی خدا کے نام کی عظمت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی۔ اس طرح کی عبارتیں دوسری یونیورسٹیوں میں لکھی نظرآئیں۱؎۔‘‘
یہ ان قوموں کا حال ہے جو تہذیب نو کی علمبردار اورتمدن جدید کی پیشوا کہلاتی ہیں۔ خدا فراموشی کی عمومی روش کے باوجود مذہب اس حد تک ان کی زندگی میں دخیل ہے۔ بلاد اسلامیہ کا قدم تو اس سلسلہ میں لازماً آگے ہونا چاہئے۔
القصہ !مذہب انسان کی اولین اوربنیادی ضرورت ہے جس کے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ مذہب سے گریز کرکے انسان ایک ترقی یافتہ حیوان تو کہلا سکتا ہے جس کا مطمح نظر ’’زیستن برائے خوردن‘‘ ہوگا۔ باقی سب خیریت ہے۔
۱؎ مقالہ بعنوان مغرب میں مذہب از پروفیسر موصوف