لیکن ’’مولوی ‘‘کیا کرے؟ میراث نبوت سے جو تھوڑا بہت حصہ اسے ملا ہے۔ اس کی بناء پرمجبور ہے کہ اﷲ اوراس کے رسولﷺ کا پیغام امت تک پہنچاتا رہے۔ خدائے واحد گواہ ہے کہ یہی جذبہ ہمدردی اوراﷲ کی طرف سے بازپرس کا احساس، راقم السطور کے لئے داعی ہوا اور نتیجتاً کچھ باتیں نوک قلم پرآگئیں۔’’معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون‘‘ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی ہے کہ آئندہ اوراق کو پڑھ کر کچھ جبینیں شکن آلود ہوں گی۔ کچھ سینے کڑھیں گے۔ لیکن مصنف قارئین سے باادب استدعا کرتا ہے کہ جلدی نہ کیجئے۔پوری متانت اور سنجیدگی سے اس کی گذارشات پر غور کیجئے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں سوچئے:
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
ہر تحریک خواہ مذہبی ہو، خواہ سیاسی، پھر وہ صحیح ہو یا غلط، اس کے قبول کرنے والے نہ سب مخلص ہوتے ہیں اور نہ سب غیرمخلص۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ طالع آزما قسم کے لوگ بڑے بڑے دعوؤں اورنعروں کے ساتھ میدان میں آجاتے ہیں۔ لیکن ان کا مقصود محض وقتی طور پر مفاد حاصل کرنا ہوتاہے اوربس۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سادہ لوح افراد نہایت نیک نیتی اورخلوص کے ساتھ ایک تحریک کو خواہ وہ کتنی غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہو،اپنالیتے ہیں۔ وہ ایثار پیشہ اور وفادار تو ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں حق و باطل کو پہچاننے اورنیک وبد میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ شعبدہ باز اورفریب کار عناصر کے دام تزویر میں پھنس کر اپنا سب کچھ اس تحریک کی خاطر تج کر دیتے ہیں۔ اس طبقہ کی غلط روی اورگمراہی کا موجب خواہ کچھ ہی ہو۔لیکن دنیا وآخرت کے خسران میں یہ پہلے طبقہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ بلکہ آخرت کے علاوہ دنیا بھی گنوا دینے کی وجہ سے اس کی حالت زیادہ افسوس ناک ہوتی ہے۔
احمدیت (اور بلفظ دیگر قادیانیت یا مرزائیت) کے نام پر تقریباً ایک صدی پیشتر ایک فرقہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جو بقول بانی فرقہ، انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے۔ ہماری دانست کے مطابق ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو دنیوی مفادات اس کے ساتھ رشتہ جوڑ لینے میں نظر آئے۔ مگر ایسے لوگ بھی یقینا ہوں گے جو دام ہمرنگ زمیں کا شکار ہوگئے:
چمن کے رنگ وبو نے اس قدر دھوکہ دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پرزباں رکھ دی