اﷲ)اگر تو انہیں عذاب دے تو بیشک یہ تیرے بندے ہیں اوراگر انہیں بخش دے تو تو زبردست اورحکمت والاہے۔}
بس پھر ساری رات اسی آیت کا ورد کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ نے اپنے محبوب صحابی عبداﷲ بن مسعودؓ کو قرآن سنانے کی فرمائش کی۔ انہوں نے سورئہ النساء پڑھنا شروع کیا۔جب اس آیت پر پہنچے:’’فکیف اذاجئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھوٰلا شھیدا (نسائ:۴۱)‘‘ {اس وقت کیا حال ہوگا جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے آئیں گے آپ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے۔}
توسرکار کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ گئی۔ شمائل ترمذی میں ایک روایت ہے: ’’کان رسول ﷺ متواصل الاحزان دائم الفکرۃ‘‘ {رسول اﷲ ﷺ پیہم ملول خاطر اور ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔}
آقائے دو جہاں کو یہ فکر اورملال کس چیز کا ہوتاتھا؟ منڈی میں بھاؤ کے اتار چڑھاؤ کا؟ زمینداری یا کارخانوں کے چکر وں کا؟مزارعین کی مخالفت یا مزدوروں کی سٹرائیک کا؟ انشورنس یا سیونگ پالیسی کا؟ملازمت پر ترقی یا جی پی فنڈ اورپنشن کے حسابات کا؟ حاشا وکلا حیٰوۃ دنیا کے یہ مسائل نگاہ نبوت میں کوئی وقعت نہں رکھتے۔ پھر یہ کس چیز کا فکر تھا؟
قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ یہ حزن وملال امت کی گمراہی کا تھا جو جان اقدس کو ہلکان کئے جاتاتھا۔ حتیٰ کہ خود اﷲ تعالیٰ کو تسلی دیناپڑتی تھی:’’لعلک باخع نفسک الّٰا یکونوا مومنین (الشعرائ:۳)‘‘{شایدآپ اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیں گے اس لئے کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اسی طرح:’’لعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا (کہف:۶)‘‘{اگر وہ ایمان نہ لائے تو شاید ان کے پیچھے افسوس میں اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیں گے۔}
آج دنیا پر گمراہی اورخدافراموشی کا ابرسیاہ چھایا ہوا ہے۔ مذہب کو تنگ نظری اور فرسودہ خیالی کانام دیا جاتا ہے۔’’مولوی‘‘ بے چارے کو دقیانوس کا خطاب دے کر اس کی بات کو ٹھکرادیاجاتاہے۔اکبر الہ آبادی نے محض تفنن طبع کے طور پر ہی نہیں کہا بلکہ حقیقت کی عکاسی کی ہے کہ:
رقیبوں نے رپٹ جا جا کے لکھوائی ہے یہ تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں