فرق کی دوسری وجہ یہ ہے کہ فلسفہ کا موضوع طبیعات ہے ۔اس عالم رنگ و بو کے علاوہ اور بھی ایک جہاں ہے۔ انسانیت کا کمال اس خالی پتلے کی آرائش میں نہیں بلکہ من کی دنیا کو آباد کرنے میں ہے۔موت کے بعد انسان پرکیاگزرتی ہے۔ یہ اور اس قسم کے دیگر مسائل فلسفی کے لئے خارج از بحث ہیں۔ اگر کسی فلسفی نے تکلف کر کے مابعد الطبیعات میںدخل دینے کی کوشش کی بھی ہے تو مضحکہ خیز حد تک اس کا علمی افلاس بہت جلد ظاہر ہوگیا۔اس کے برعکس نبوت کے حدود وہیں سے شروع ہوتے ہیں جہاں فلسفہ آکر رک جاتا ہے۔ چنانچہ حیات بعد الممات ، برزخ اور آخرت ،حشر ونشر،جزا وسزا،جنت ونار وغیرہ نبوت کااصل موضوع ہے۔ حیات دنیا اوراس کے متعلقات کا ضمناً کوئی ذکر آجائے تودوسری بات ہے ورنہ تو نبی کاروئے سخن براہ راست اس طرف نہیں ہوتا۔
نبی اورفلسفی میں تیسر ا اہم فرق یہ
موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستان یار سے اٹھ جائیں کیا؟
نبی کے پیش نظر دنیا کی چند روزہ زندگی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کا مطمح نگاہ آخرت کی ابدی اور سرمدی زندگی اوروہاں کا دکھ سکھ ہوتاہے۔اس لئے امت کی بے راہ روی اسے بے قرار رکھتی ہے۔ وہ اسی دھن میں رہتا ہے کہ اﷲ کے بندے جو جہنم کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔ انہیںپکڑ پکڑ کر پیچھے ہٹائے۔ پیغمبر اپنی امت کے حق میں رؤف ورحیم ہوتا ہے۔ وہ سوز وگداز کا پیکر اور اخلاص و درد کی تصویر ہوتاہے۔ سیرت طیبہ کو پڑھ کر دیکھئے، رحمت دو عالمﷺ شب کی تاریکی میں اپنے اﷲ کے ساتھ محوراز ونیاز ہیں۔ زبان مبارک پر یہ آیت کریمہ آجاتی ہے: ’’ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (مائدہ:۱۱۸)‘‘ {(اے