تھی۔ اڑھائی سو سال بلکہ ساڑھے تین سو سال تک عمر بتائی گئی ہے۔ واﷲ اعلم! رسول اﷲﷺ ان کے تجربات زندگی سے بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق انہی کے مشورہ سے کھودی گئی تھی۔ ان کی شان میں رسول اﷲﷺ کے کئی فرمان موجود ہیں۔ مثلاً: ایک یہ کہ جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے۔ جن میں سے ایک نام حضرت سلمان فارسیؓ کا ہے۔ محدثین کرامؒ نے آپؓ کے مناقب میں ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’سلمان منا اہل البیت!‘‘ بعض محدثین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جب غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی ہونے لگی اور رسول اﷲﷺ نے کھدائی کے لئے زمین صحابہ کرامؓ میں تقسیم فرما دی۔ تو اس وقت کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ: سلمان کس کے ساتھ ہوں گے؟ مہاجرین کے یا انصار کے کسی شاخ کے؟ اس کے جواب میں آقاؐ نے اپنے ایک مخلص غلام کو اس اعزاز سے نوازا اور فرمایا کہ: ’’سلمان منا اہل البیت!‘‘
اس پس منظر کو ذہن میں رکھئے اور پھر دیکھئے کہ مرزاقادیانی نے اپنے علم و فضل سے کیونکر اس ارشاد گرامی کا حلیہ بگاڑا۔ العیاذ باﷲ!
’’میرے خاندان کی نسبت ایک اور وحی الٰہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتا ہے۔ سلمان منا اہل البیت (ترجمہ) یعنی یہ عاجز جودوصلح کی بنیاد ڈالتا ہے ہم میں سے ہے جو اہل بیت ہیں۔ یہ وحی الٰہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اس عاجز کی سادات میں سے تھیں۔ اور دو صلح سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کے اندرونی فرقوں میں ہوگی اور بہت کچھ تفرقہ اٹھ جائے گا اور دوسری صلح اسلام کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائے گی اور وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ تب خاتمہ ہوگا۔ ‘‘ (حقیقت الوحی حاشیہ ص۷۸، خزائن ج۲۲ ص۸۱)
قارئین کرام! پڑھ لیا آپ نے اس اقتباس کو؟ بتائیے عربی زبان کی کون سی گرامر، عربی ادب کے کس اصول کے تحت یہ تشریح کی گئی ہے؟ اگر پہلا لفظ سلمان ہے تو اس کا ترجمہ ’’دو صلح‘‘ کیونکر ہوگیا اور اگر یہ لفظ سلمان بصیغہ تثنیہ ہے۔ تو آگے منا اہل البیت کہنے کی کیا تک بنتی ہے؟ العیاذ باﷲ! ثم العیاذ باﷲ! خدا کو بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مرزا قادیانی نے کتاب کے اسی صفحہ پر اوپر بھی ایک روایت نقل کی ہے۔ جو بالعموم حضرت سلمانؓ ہی کے بارے میں نقل کی جاتی ہے۔ یہ ہیں متنبی پنجاب کی ’’وحی ‘‘ کے کرشمے اس لئے تو یہ مثل بنی ہے‘‘ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔‘‘