جب سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام تشریف لاکر ادھر صلیب توڑ ڈالیں گے۔ دوسری طرف تمدن کی اصلاح فرمادیں گے۔ اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو قبول نہیں فرمائیں گے۔ تو اب جزیہ کیوں کر باقی رہ جائے گا۔ پھر آپ کی آمد سے وہ برکات نمودار ہوں گی۔ کہ نہ کوئی بندہ رہے گا۔ نہ بندہ نواز! نہ زکوٰۃ لینے والے مل سکیں گے۔ نہ کوئی گداگر اور بھکاری۔ یوں سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں گے۔
کمرے میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہو تو آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ A/C یا کم از کم پنکھا چل رہا ہے۔ رات کے وقت مکان میں روشنی ہو تو پتہ چلتا ہے کہ بجلی کا بلب یا چراغ جل رہا ہے۔ روشن دان سے دھواں نکلتا ہوا دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باورچی خانہ میں آگ جل رہی ہے۔ اگر آپ کو نزول سیدنا مسیح علیہ السلام کے نتائج اور آثار نظر آتے ہوں تو آپ بے شک یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مسیح موعود آچکے ہیں اور جب یہاں حال یہ ہے کہ کفر دندنا رہا ہے۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔ سید الاولین والآخرینﷺ کی پیشین گوئی پوری ہونے کے لئے فضا ہموار ہورہی ہے۔ آقائے دو جہاںﷺ کے ارشادات گرامی کا ایک ایک لفظ پورا ہوکر رہے گا۔ ہم نہیں تو ہماری نسلیں دیکھیں گی اور ضرور دیکھیں گی۔ وہ وقت آئے اور ضرور آئے گا۔ دور نہیں! بہت ہی قریب ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہماری تیاری اور ہمارا Contribution کیا ہوگا؟
چوتھی وضاحت
بعض لوگوں کو اس پر شاید حیرت ہوئی ہو کہ بزرگان امت نے احادیث نزول سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کو معناً متواتر قرار دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے۔ کہ کسی مسئلہ پر بالفرض حدیث متواتر نہ ملے۔ مشہور ہو یا باخبر واحد ہو لیکن صحیح سند سے ثابت ہو تو صادق الایمان مسلمان کے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ دل وجان سے اسے تسلیم کرے۔ تاہم ہم یہاں پر دور حاضر کے ایک محقق، جو قبول احادیث کے بارے میں بڑے متشدد ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے چند جملے نقل کرنا چاہتے ہیں۔ شاید کسی طالب حق کو فائدہ پہنچ جائے۔ فرماتے ہیں:
’’واعلم ان احادیث الدجال ونزول عیسیٰ علیہ السلام متواترۃ۔