حکومت رومیوں کی تھی۔ ناقل) اس نے دین نصرانیت کو قبول کرلیا۔ اب بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ فلسفی مزاج تھا اور اس نے ایک چال کے طور پر مسیحیت کو قبول کیا تھا۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں۔ کہ اس نے ازراہ جہل ونادانی ایسا کیا۔ مگر اس نے دین مسیحی میں کچھ تغیر وتبدیل کردیا اور کچھ کمی وبیشی۔… اسی کے زمانہ میں خنزیر کو حلال قرار دیا گیا۔ نماز کے لئے قبلہ بجانب مشرق مقرر ہوا… عبادت خانہ اور گرجوں میں تصویریں لٹکائیں گئیں…اس طرح دین مسیحی دراصل قسطنطین کا تیار کردہ قانون رہ گیا۔} (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶)
علمائے امت اور ائمہ دین کی تشریحات کے مطابق کسر صلیب سے مراد دین مسیحیت کا ابطال ہے۔ صلیب ان لوگوں کا مذہبی شعار ہے۔ جو ان کے تمدن کے ایک ایک شعبہ میں نمایاں ہے۔ لباس میں نمایاں ، رہائشی عمارات میں، گرجا گھروں میں، مصنوعات میں، غرض ہر جگہ نمایاں، عالمی رفاہی تنظیم، جو عوام کی بہبودی کے لئے بنائی گئی تو اس کا نام (ریڈ کراس سوسائٹی) رکھا گیا۔ وہ ٹکٹ یا پرچیاں جاری کریں گے تو ان پر ’’صلیب احمر‘‘ کا نشان موجود ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔ خنزیر کا گوشت آج ان لوگوں کا سب سے من بھاتا کھاجا ہے۔ خنزیر ان کی ایک ایک چیز میں شامل ہے۔ بطور لطیفہ ہم یہاں ایک کہانی درج کرتے ہیں۔
’’ایک عرب سے پوچھا گیا تھا: تم کیا کھاتے ہو؟ کہا: اونٹ۔ کیا پیتے ہو؟ جواب: اونٹنی! کیا پہنتے ہو؟ جواب: اونٹ۔ کس میں رہتے ہو؟ جواب اونٹ میں ! پوچھا گیا: وہ کیسے؟ جواب دیا: اونٹ کا گوشت کھاتا ہوں۔ اونٹنی کا دودھ پیتا ہوں۔ اونٹ کی اون سے تیار شدہ لباس پہنتا اور اونٹ کی اون سے تیار شدہ خیمہ میں رہتا ہوں۔‘‘
یہ لطیفہ تو اﷲ جانتا ہے۔ یوں ہی کہاوت ہے یا حقیقت؟ مگر اقوام یورپ تو واقعہ یہ ہے کہ ان کی بودوباش کے ایک ایک شعبہ میں خنزیر کار فرما ہے۔ تازہ دودھ ملے گا تو سورنیوں کا۔ گوشت ملے گا تو سوروں کا۔ ڈبوں میں بند گوشت یا خشک دودھ ملے گا تو سوروں کا۔ دانتوں کے برش تک سوروں کے بالوں کے بنے ہوئے کنگبنں سور کی ہڈیوں کے وہاں آپ کو فارم ملیں گے تو سوروں کے پھر خنزیر دیوثی کا پیکر اور بے غیرتی کا مرقع۔ اس کے آثار آپ کو یورپی اقوام میں نظر آئیں گے۔