کے نزول کے لئے منارہ کی تعمیر۔ اﷲ تعالیٰ نے نصاریٰ ہی کے مال سے مقدر فرما دی۔
’’(اس عبارت کو نقل کرکے علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ یہ دلائل نبوت میں سے ہے۔‘‘
(مرقاۃ الصعود، حاشیہ سنن ابی دائود، از علامہ سیوطیؒ، مصباح الزجاجہ، حاشیہ سنن ابی ماجہ از علامہ سیوطیؒ)
مزید وضاحت کے لئے ہم پھر عرض کردیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق میں شرقی سمت ہوگا یا دمشق سے شرقی جانب، بہر حال سفید منارہ، آپ علیہ السلام کی آمد سے پہلے موجود ہوگا۔ یوں نہیں ہوگا کہ آپؑ نازل ہوجائیں گے اور اس کے
عقیدہ نزول سیدنا مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں ہم نے چند احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سے نمبر۸ پر جو روایت آئی ہے اس میں ان فرائض کا ذکر ہے۔ جو آپ علیہ السلام کے نزول کے بعد سرانجام دیں گے۔ کہ آپ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو ہلاک کردیں گے اور جزیہ وغیرہ کو ختم کردیں گے۔ کچھ لوگوں نے ان باتوں کا مذاق اڑا کر اپنی شقاوت کا ثبوت دیا ہے۔ اعاذنا اﷲ منہ!
ہم اس سلسلہ میں علامہ محقق ابن کثیرؒ کا ایک فرمان نقل کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قدرت نے سیدنا عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہ السلام کو یہ فرائض کیوں تفویض فرمائے؟ فرماتے ہیں:
{جب اﷲ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان کی طرف اٹھالیا تو آپؑ کے پیروکار کئی گروہوں میں بٹ گئے۔ کچھ لوگ ایمان پر رہے۔ وہ آپؑ کو اﷲ کا بندہ اور رسول مانتے رہے۔ ایک گروہ نے آپؑ کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا۔ کچھ نے انہیں خود خدا مان لیا۔ اور وہ ثالث ثلثہ کے قائل ہوگئے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی یہ گفتگو نقل فرمائی ہے۔ تین سو سال تک معاملہ یوں ہی چلتا رہا۔ اس کے بعد ایک یونانی حکمران قسطنطین نمودار ہوا۔ (کیونکہ اس وقت بیت المقدس پر